<body topmargin="0" leftmargin="0" bgcolor="#F9F8EC" bgproperties="fixed"><script type="text/javascript"> function setAttributeOnload(object, attribute, val) { if(window.addEventListener) { window.addEventListener('load', function(){ object[attribute] = val; }, false); } else { window.attachEvent('onload', function(){ object[attribute] = val; }); } } </script> <div id="navbar-iframe-container"></div> <script type="text/javascript" src="https://apis.google.com/js/platform.js"></script> <script type="text/javascript"> gapi.load("gapi.iframes:gapi.iframes.style.bubble", function() { if (gapi.iframes && gapi.iframes.getContext) { gapi.iframes.getContext().openChild({ url: 'https://www.blogger.com/navbar.g?targetBlogID\x3d12814790\x26blogName\x3d%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88+%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D8%B6\x26publishMode\x3dPUBLISH_MODE_BLOGSPOT\x26navbarType\x3dBLUE\x26layoutType\x3dCLASSIC\x26searchRoot\x3dhttps://bayaaz.blogspot.com/search\x26blogLocale\x3den_US\x26v\x3d2\x26homepageUrl\x3dhttp://bayaaz.blogspot.com/\x26vt\x3d2065659182679175016', where: document.getElementById("navbar-iframe-container"), id: "navbar-iframe" }); } }); </script>

Sunday, August 27, 2006

يونہی ہنسی ہنسی میں

يونہی ہنسی ہنسی میں ہم دلوں سے کھیل جاتے ہیں کوئی چھوٹی سی تيکھی بات کوئی چبھتا ہوا جملہ کوئی زہر آلود لہجہ کوئی بے ضرر سي ذو معنی بات سننے والے کے دل پر گھاؤ لگا جاتی ہے پھر کتنی ہی تلافی کے مرہم لگاؤ قطرہ قطرہ خون ٹپکتا ہی رہتا ہے وہ آنسو جو آنکھ سے گِرتا ہی نہیں اندر ہی اندر جم جاتا ہے برف پہ گرے قطرے کی طرح اور برف تو شايد وقت کی گرمی سے پگھل جاتي ہے مگر وہ قطرہ جب بھی پگھلنے لگتا ہے پھیل جاتا ہے بڑھ جاتا ہے بس ختم نہیں ہوتا اور يونہی ہنسی ہنسی میں ہم دلوں سے کھیل جاتے ہیں



Saturday, August 26, 2006

ابتدائي حساب

حساب کے چار بڑے قاعدے ہيں جمع، تفريق، ضرب، تقسيم پہلا قاعدہ : جمع جمع کے قاعدے پر عمل کرنا آسان نہيں خصوصا مہنگائي کے دنوں میں سب کچھ خرچ ہوجاتا ہے کچھ جمع نہيں ہوپاتا جمع کا قاعدہ مختلف لوگوں کيلئے مختلف ہے عام لوگوں کيلئے ١+١ = 1 1/2 کيونکہ 1/2 انکم ٹيکس والے لے جاتے ہيں تجارت کے قاعدے سے جمع کرائيں تو 1+1 کا مطلب ہے گيارہ رشوت کے قاعدے سے حاصل جمع اور زيادہ ہوجاتا ہے قاعدہ وہي اچھا جس ميں حاصل جمع زيادہ آئے بشرطيکہ پوليس مانع نہ ہو ايک قاعدہ زباني جمع خرچ کا ہوتا ہے يہ ملک کے مسائل حل کرنے کا کام آتا ہے آزمودہ ہے ۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔



Friday, August 25, 2006

گُلوں ميں رنگ بھرے باد نو بہار چلے

گُلوں ميں رنگ بھرے باد نو بہار چلے چلے بھي آؤ کہ گلشن کا کاروبار چلے قفس اداس ہے ياروں صبا سے کچھ تو کہو کہيں تو بہرِ خدا، آج ذکرِ يار چلے کبھي تو صبح ترے کنج لب سے ہو آغاز کبھي تو شب سرکا کل سے مشکبار چلے بڑا ہے درد کا رشتہ ،يہ دل غريب سہي تمہارے نام پہ آئيں گے غمگسار چلے جو ہم پہ گزري سو گزري مگر شب ہجراں ہمارے اشک تري عاقبت سنوار چلے حضور يار ہوئي دفتر جنوں کي طلب گرہ ميں لے کر گريبان کا تار تار چلے ۔۔۔ فيض احمد فيض ۔۔۔



يہ عالم شوق

يہ عالم شوق کا ديکھا نہ جائے وہ بت ہے يا خدا، ديکھا نہ جائے يہ کن نظروں سے تو نے آج ديکھا کہ تيرا ديکھنا، ديکھا نہ جائے ہميشہ کيلئے مجھ سے بچھڑ جا يہ منظر بارہا ديکھا نہ جائے غلط ہے سنا پر آزما کر تجھے اے بے وفا ديکھا نہ جائے يہ محرومي نہيں پاس وفا ہے کوئي تيرے سوا ديکھا نہ جائے يہي تو آشنا بنتے ہيں آخر کوئي نا آشنا ديکھا نہ جائے فراز اپنے سوا ہے کون تيرا تجھے تجھ سے جدا ديکھا نہ جائے ۔۔۔ احمد فراز ۔۔۔



Wednesday, August 23, 2006

کب ياد ميں

کب ياد ميں تيرا ساتھ نہيں، کب بات ميں تري بات نہيں صد شکر کہ اپني راتوں ميں اب ہجر کي کوئي رات نہيں مشکل ہيں اگر حالات وہاں، دل بيچ آئيں جان دے آئيں دل والوں کوچہ جاناں ميں کيا ايسے بھي حالات نہيں جس دھج سے کوئي مقتل ميں گيا، وہ شان سلامت رہتي ہے يہ جان تو آني جاني ہے، اس کي تو کوئي بات نہيں ميدان وفا دربار نہیں، ياں نام و نسب کي پوچھ کہاں عاشق تو کسي کا نام، کچھ عشق کسي کي ذات نہيں گربازي عشق کي بازي ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کيسا گر جيت گئےتو کيا کہنا، ہارے بھي بازي مات نہيں ۔۔۔ فيض احمد فيض ۔۔۔



Monday, August 21, 2006

اتفاق ميں برکت ہے

ايک بڑے مياں جنہوں نے اپني زندگي ميں بہت کچھ کمايا بنايا تھا۔ آخر بيمار ہوئے، مرض الموت ميں گرفتار ہوئے۔ ان کو اور تو کچھ نہیں، کوئي فکر تھي تو يہ کہ ان کے پانچوں بيٹوں کي آپس میں نہیں بنتي تھي۔ گاڑھي کيا پتلي بھي نہیں چھنتي تھي۔ لڑتے رہتے تھے کبھي کسي بات پر اتفاق نہ ہوتا تھا حالانکہ اتفاق ميں بڑي برکت ہے۔ آخر انہوں نے بيٹوں پر اتحاد و اتفاق کي خوبياں واضح کرنے کے لئے ايک ترکيب سوچي۔ ان کو اپنے پا س بلايا اور کہا ۔ ديکھو اب میں کوئي دم کا مہمان ہوں سب جا کر ايک ايک لکڑي لاؤ۔ ايک نے کہا۔ لکڑي؟ آپ لکڑيوں کا کيا کريں گے؟ دوسرے نے آہستہ سے کہا ۔بڑے مياں کا دماغ خراب ہو رہا ہے۔ لکڑي نہیں شايد ککڑي کہہ رہے ہیں، ککڑي کھانے کو جي چاہتا ہوگا۔ تيسرے نے کہا نہیں کچھ سردي ہے شايد آگ جلانے کو لکڑياں منگاتے ہوں گے ۔ چوتھے نے کہا بابو جي کوئلے لائيں؟ پانچويں نے کہا نہیں اپلے لاتا ہوں وہ زيادہ اچھے رہيں گے۔ باپ نے کراہتے ہوئے کہا ارے نالائقو میں جو کہتا ہوں وہ کرو۔ کہیں سے لکڑياں لاؤ جنگل سے۔ ايک بيٹے نے کہا۔ يہ بھي اچھي رہي، جنگل يہاں کہا؟ اور محکمہ جنگلات والے لکڑي کہاں کاٹنے ديتے ہيں۔ دوسرے نے کہا آپنے آپے ميں نہیں ہيں بابو جي بک رہے ہيں جنون ميں کيا کيا کچھ۔ تيسرے نے کہا بھئي لکڑيوں والي بات اپُن کي تو سمجھ میں نہیں آئي۔ چوتھے نے کہا۔ بڑے مياں نے عمر بھر ميں ايک ہي تو خواہش کي ہے اسے پورا کرنے ميں کيا حرج ہے؟ پانچويں نے کہا اچھا میں جاتا ہوں ٹال پر سے لکڑياں لاتا ہوں۔ چنانچہ وہ ٹال پرگيا، ٹال والے سے کہا خان صاحب ذرا پانچ لکڑياں تو دينا اچھي مضبوط ہوں۔ ٹال والے نے لکڑياں ديں۔ ہر ايک خاصي موٹي اور مضبوط ۔ باپ نے ديکھا اس کا دل بيٹھ گيا۔ يہ بتانا بھي خلاف مصلحت تھا کہ لکڑياں کيوں منگائي ہيں اور اس سے کيا اخلاقي نتيجہ نکالنا مقصود ہے۔ آخر بيٹوں سے کہا۔ اب ان لکڑيوں کا گھٹا باندھ دو۔ اب بيٹوں ميں پھر چہ ميگوئياں ہوئيں،گٹھا، وہ کيوں؟ اب رسي کہاں سے لائیں بھئي بہت تنگ کيا اس بڈھے نے ۔ آخر ايک نے اپنے پاجامے ميں سے ازار بند نکالا اور گھٹا باندھا۔ بڑے مياں نے کہا۔ اب اس گھٹے کو توڑو۔ بيٹوں نے کہا۔ تو بھئي يہ بھي اچھي رہي۔ کيسے توڑيں ۔ کلہاڑا کہاں سے لائيں ۔ باپ نے کہا کلہاڑي سے نہیں ۔ہاتھوں سے توڑو گھٹنے سے توڑو۔ حکم والد مرگ مفاجات ۔ پہلے ايک نے کوشس کي ۔پھر دوسرے نے پھر تيسرے نے پھر چوتھے نے پھر پانچويں نے۔ لکڑيوں کا بال بيکا نہ ہوا۔ سب نے کہا بابو جي ہم سے نہیں ٹوٹتا يہ لکڑيوں کا گھٹا۔ باپ نے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو الگ الگ کر دو ، ان کي رسي کھول دو۔ ايک نے جل کر کہا رسي کہاں ہے ميرا ازار بند ہے اگر آپ کو کھلوانا تھا تو گھٹا بندھوايا ہي کيوں تھا۔ لاؤ بھئي کوئي پنسل دينا ازار بند ڈال لوں پاجامے میں۔ باپ نے بزرگانہ شفقت سے اس کي بات کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا اچھا اب ان لکڑيوں کو توڑو ايک ايک کر کے توڑو۔ لکڑياں چونکہ موٹي موٹي اور مضبوط تھيں۔ بہت کوشش کي کسي سے نہ ٹوٹيں آخر میں بڑے بھائي کي باري تھي۔ اس نے ايک لکڑي پر گھٹنے کا پورا زور ڈالا اور تڑاخ کي آواز آئي۔ باپ نے نصيحت کرنے کے لئے آنکھيں ايک دم کھول ديں، کيا ديکھتا ہے کہ بڑا بيٹا بے ہوش پڑا ہے۔ لکڑي سلامت پڑي ہے۔ آواز بيٹے کے گھٹنے کي ہڈي ٹوٹنے کي تھي۔ ايک لڑکے نے کہا يہ بڈھا بہت جاہل ہے۔ دوسرے نے کہا۔ اڑيل ضدي۔ تيسرے نے کہا، کھوسٹ ، سنکي عقل سے پيدل، گھا مڑ۔ چوتھے نے کہا۔ سارے بڈھے ايسے ہي ہوتے ہيں کمبخت مرتا بھي نہیں۔ بڈھے نے اطمينان کا سانس ليا کہ بيٹوں ميں کم از کم ايک بات پر تو اتفاق رائے ہوا۔ اس کے بعد آنکھيں بند کيں اور نہايت سکون سے جان دے دي۔ ۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔



Saturday, August 19, 2006

بڑا پانی

اگرچہ ۔۔۔ جھیلوں اور ایسے بڑے پانیوں کے دوسرے کنارے ہمیشہ زیادہ حسین اور دلفریب دکھائی دیتے ہیں لیکن اس بڑے پانی کا یہ کنارہ جہاں ہم تھے ۔۔۔ بقول یوسف بس “غدر“ تھا ۔۔۔ بڑے پانی کی گہری نیلگوں ندی سے بلند اس کنارے کی جو ہموار سطح تھی وہاں جو گھاس سرسراتی تھی ۔۔۔ وہ دوپہر کی دھوپ میں مایا زیوروں کے سنہری پن اور ساسانی جام کے سونے کی قدامت سے بھی بڑھ کر سنہری اور روشن تھی ۔۔۔ اس کی زرد خزاں رنگت ایسی تھی کہ اس پر دنیا کا سب سے بڑا مصور بھی اگر صرف ایک سٹروک لگا کر اس کے حسنِ کرشمہ ساز کو مکمل کرنا چاہے ۔۔۔ وہ بے شک چاند کے زرد تھال میں سے رنگ نکال لے ۔۔۔ ابھرتے سورج کی زردی میں اپنا برش ڈبو لے ۔۔۔ تب بھی اسے بڑے پانی کی اس سنہری گھاس میں کہیں سے ایک ایسا مقام نہیں ملے گا جس پر وہ یہ سٹروک لگا کر تصویر کو مکمل کرے ۔۔۔ کیونکہ تصویر تکمیل کی حدوں سے بھی آگے جا کر اپنی زردی اور سنہرے پن میں ۔۔۔ کسی بھی مصور کے بس سے باہر ہو چکی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ مستنصر حسین تاڑر کی “دیوسائی“ سے اک اقتباس ۔۔۔ تصویر کے لئیے آوارہ کا شکریہ



Friday, August 18, 2006

چڑا اور چڑيا

ايک تھي چڑيا، ايک تھا چڑا، چڑيا لائي دال کا دانا، چڑا لايا چاول کا دانا، اس سے کچھڑي پکائي، دونوں نے پيٹ بھر کر کھائي، آپس ميں اتفاق ہو تو ايک ايک دانے کي کچھڑي بھي بہت ہوتي ہے۔ چڑا بيٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل ميں وسوسہ آيا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کچھڑي پکي تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصے مجھے دے، چواليس حصے تو لے، اے باگھوان پسند کر يا نا پسند کر ۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر ، چڑے نے اپني چونچ ميں سے چند نکات بھي نکالے، اور بي بي نے آگے ڈالے۔ بي بي حيران ہوئي بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئي کہ اس کے ساتھ تو ميرا جنم کا ساتھ تھا ليکن کيا کر سکتي تھي۔ دوسرے دن پھر چڑيا دال کا دانا لائي اور چڑا چاول کا دانا لايا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈيا چڑھائي ، کچھڑي پکائي ، کيا ديکھتے ہیں کہ دو ہي دانے ہيں، چڑے نے چاول کا دانا کھايا، چڑيا نے دال کا دانا اٹھايا ۔ چڑے کو خالي چاول سے پيچش ہوگئي چڑيا کو خالي دال سے قبض ہو گئي۔ دونوں ايک حکيم کے پاس گئے جو ايک بِلا تھا، اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھيرا اور پھيرتا ہي چلا گيا۔ ديکھا تو تھے دو مشت پر يہ کہاني بہت پرانے زمانے کي ہے۔ آج کل تو چاول ايکسپورٹ ہو جاتا ہے اور دال مہنگي ہے۔ اتني کہ وہ لڑکياں جو مولوي اسماعيل ميرٹھي کے زمانے ميں دال بگھارا کرتي تھيں۔ آج کل فقط شيخي بگھارتي ہيں۔ ۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔



Thursday, August 17, 2006

خدا کرے

خدا کرے کہ میری ارض پاک پر اترے وہ فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو یہاں سے جو پھول کھلے، کھلا رہے صدیوں یہاں سے خزاں کو گزرنے کی مجال نہ ہو یہاں جو سبزا اُگے ہمیشہ سبز رہے اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو خدا کرے کہ نہ خم ہو سر وقار وطن اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو ہر ایک فرد ہو، تہذیب و فن کا اوج کمال کوئی ملول نہ ہو، کوئی خستہ حال نہ ہو خدا کرے میرے ایک بھی ہم وطن کے لئے حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو شعیب صفدر کے بلاگ سے ، شکریہ کے ساتھ



Wednesday, August 16, 2006

دل کی دنیا میں کبھی ایسا بھی سناٹا نہ تھا

دل کی دنیا میں کبھی ایسا بھی سناٹا نہ تھا ہم ہی ساکت ہو گۓ تھےوقت تو ٹھہرا نہ تھا یہ بجا ! کہ وسوسے بھی دل میں اٹھتے تھے مگر یوں بھی ھوجاۓ گا ایسا تو کبھی سوچا نہ تھا وسوسے تھے، خوف تھا، ڈر بھی تھا، اندیشے بھی تھے اتنا روشن چاند پہلے ڈوبتے دیکھا تو نہ تھا ضرب کاری تھی بہت آخر شکستہ ہوگیا دل ہی تھا پہلو میں پتھر کا کوئ ٹکڑا نہ تھا اسکے سینے میں اگر ہو درد کی دنیا تو ہو اسکے چہرے پر کسی بھی کرب کا سایہ نہ تھا تھا بہاروں کا پیامی اس کے چہرے کا گلاب مشکلوں کے ریگزار میں بھی کملایا نہ تھا وہ ترو تازہ، شگفتہ، خنداں، روشن، دلربا بھول جاؤں میں جسے ایسا تو وہ چہرہ نہ تھا گرد جسکے کھینچ رکھا تھا حفاظت کا حصار چھوڑ کے کیسے اسے تنہا یہاں رخصت ہوا یا الہی کیا کروں دل حوصلہ پاتا نہیں جس کو نظریں ڈھونڈتی ہیں وہ نظر آتا نہیں



Monday, August 14, 2006

امید

آؤ وعدہ کریں آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم دیدہِ دل کی بے انت شاہی میں ہم زیرِ دامانِ تقدیسِ لوح و قلم اپنے خوابوں، خیالوں کی جاگیر کو فکر کے موءقلم سے تراشی ہوئی اپنی شفاف سوچوں کی تصویر کو اپنے بے حرف ہاتھوں کی تحریر کو، اپنی تقدیر کو یوں سنبھالیں گے، مثلِ چراغِ حرم جیسے آندھی میں بے گھر مسافر کوئی بجھتی آنکھوں کے بوسیدہ فانوس میں پہرہ داروں کی صورت چھپائے رکھے جانے والوں کے دھندلے سے نقشِ قدم آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم - پھر ارادہ کریں جتنی یادوں کے خاکے نمایاں نہیں جتنے ہونٹوں کے یاقوت بے آب ہیں جتنی آنکھوں کے نیلم فروزاں نہیں جتنے چہروں کے مرجان زرداب ہیں جتنی سوچیں بھی مشعلِ بداماں نہیں جتنے گل رنگ مہتاب گہناگئے - جتنے معصوم رخسار مرجھا گئے جتنی شمعیں بجھیں ، جتنی شاخیں جلیں سب کو خوشبو بھری زندگی بخش دیں، تازگی بخش دیں بھر دیں سب کی رگوں میں لہو نم بہ نم مثلِ ابرِ کرم رکھ لیں سب کا بھرم دیدہ و دل کی بے انت شاہی میں ہم زخم کھائیں گے حسنِ چمن کے لئیے اشک مہکائیں گے مثلِ رخسارِ گل صرف آرائشِ پیرہن کے لئیے، مسکرائیں گے رنج و غم دہر میں اپنی ہنستی ہوئی انجمن کے لئیے طعنِ احباب، سرمایہ کج دل، بجز اغیار سہہ لیں گے فن کے لئیے آؤ وعدہ کریں سانس لیں گے متاعِ سخن کے لئیے جان گنوائیں گے ارضِ وطن کے لیے دیدہ و دل کی شوریدگی کی قسم آسمانوں سے اونچا رکھیں گے عَلم آؤ وعدہ کریں آج کے دن کی روشن گواہی میں ہم ۔۔۔ محسن نقوی ۔۔۔



Friday, August 11, 2006

ھم لوگ نہ تھے ایسے

ھم لوگ نہ تھے ایسے ہیں جیسے نظر آتے اے وقت گواہی دے ھم لوگ نہ تھے ایسے یہ شہر نہ تھا ایسا یہ روگ نہ تھے ایسے دیوار نہ تھے رستے زندان نہ تھی بستی آزار نہ تھے رشتے خلجان نہ تھی ہستی یوں موت نہ تھی سستی یہ آج جو صورت ہے حالات نہ تھے ایسے یوں غیر نہ تھے موسم دن رات نہ تھے ایسے تفریق نہ تھی ایسی سنجوگ نہ تھے ایسے اے وقت گواہی دے ھم لوگ نہ تھے ایسے امجد اسلام امجد کی یہ نظم کافی عرصہ پہلے پڑھی تھی، اور مجھے بہت اچھی لگتی ہے۔



Wednesday, August 09, 2006

زندگی

زندگی سے ڈرتے ہو؟ ,زندگی تو تم بھی ہو، زندگی تو ہم بھی ہیں آدمی سے ڈرتے ہو؟ آدمی تو تم بھی ہو، آدمی تو ہم بھی ہیں آدمی زبان بھی ہے، آدمی بیاں بھی ہے !اس سے تم نہیں ڈرتے ,حروف اور معنی کے رشتہِ ہائے آہن سے ,آدمی ہے وابستہ ,آدمی کے دامن سے زندگی ہے وابستہ !اس سے تم نہیں ڈرتے ,ان کہی“ سے ڈرتے ہو " جو ابھی نہیں آئی، اُس گھڑی سے ڈرتے ہو اس گھڑی کی آمد کی آگہی سے ڈرتے ہو ۔۔۔ پہلے بھی تو گزرے ہیں دور نارسائی کے، بے ریا خدائی کے پھر بھی یہ سمجھتے ہو، ہیچ آرزومندی یہ شبِ زباں بندی، ہے رہِ خداوندی تم مگر یہ کیا جانو لب اگر نہیں ہلتے، ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں ہاتھ جاگ اٹھتے ہیں، راہ کا نشاں بن کر نور کی زباں بن کر ہاتھ بول اٹھتے ہیں، صبح کی اذاں بن کر روشنی سے ڈرتے ہو؟ روشنی تو تم بھی ہو، روشنی تو ہم بھی ہیں روشنی سے ڈرتے ہو شہر کی فصیلوں پر دیو کا جو سایا تھا پاک ہو گیا آخر رات کا لبادہ بھی چاک ہو گیا آخر، خاک ہو گیا آخر رات کا لبادہ بھی اژدھامِ انساں سے فرد کی نوا آئی ذات کی صدا آئی راہِ شوق میں جیسے راہرو کا خوں لپکے اک نیا جنوں لپکے آدمی چھلک اٹھے آدمی ہنسے ۔۔۔ دیکھو، شھر پھر بسے ۔۔۔ دیکھو تم ابھی سے ڈرتے ہو؟



Tuesday, August 08, 2006

پرانی کتاب میں رکھی تصریر سے باتیں

پرانی کتاب میں رکھی تصریر سے باتیں آج برسوں کے بعد دیکھا ہے اب بھی آنکھوں کا رنگ گہرا ہے اور ماتھے کی سانولی سی لکیر دل میں کتنے دئیے جلاتی ہے تیری قامت کے سائے کی خوشبو گفتگو میں بہار کا موسم بے سبب اعتبار کا موسم کیوں مجھے سارے ڈھنگ یاد رہے کتنی حیراں ہو گئی خود پر میں تجھے آج تک نہیں بھولی پچھلے موسم کی یاد باقی ہے ۔۔۔ نوشی گیلانی ۔۔۔



Monday, August 07, 2006

کمرہِ امتحاں

بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتے ہیں ,پرچے کو بے خیال ہاتھوں سے اَن بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتے ہیں !یا سوالنامے کو دیکھتے ہی جاتے ہیں ہر طرف کن انکھیوں سے بچ بچا کے تکتے ہیں دوسروں کے پرچے کو رہنما سمجھتے ہیں !شاید اس طرح کو ئی راستہ ہی مل جائے بے نشاں خوابوں کا کچھ پتہ ہی !مل جائے مجھ کو دیکھتے ہیں تو یوں جوابً کاپی پر، حاشیے لگاتے ہیں دائرے بناتے ہیں جیسے ان کو پرچے کے سب جواب !آتے ہیں ۔۔۔ اس طرح کے منظر میں امتحاں گاہوں میں، دیکھتا ہی رہتا تھا ,نقل کرنے والوں کو نِت نئے طریقوں سے آپ لطف لیتا تھا، دوستوں سے کہتا تھا کس طرف سے جانے یہ آج دل کے آنگن میں اِک خیال آیا ہے !سینکڑوں سوالوں سے اک سوال لایاہے وقت کی عدالت میں زندگی کی صورت میں ,یہ جو تیرے ہاتھوں میں اک سوالنامہ ہے کس نے بنایا ہے؟ کس لئیے بنایا ہے؟ کچھ سمجھ میں آیا ہے؟ زندگی کے پرچے میں سب سوال لازم ہیں !سب سوال مشکل ہیں بے نگاہ آنکھوں سے دیکھتا ہوں پرچے کو بے خیال ہاتھوں سے اَن بنے سے لفظوں پر انگلیاں گھماتا ہوں حاشیہ لگاتا ہوں ,دائرے بناتا ہوں یا سوالنامے کو !دیکھتا ہی جاتا ہوں ۔۔۔ امجد اسلام امجد ۔۔۔



فعل ديگر

فعل کي بنيادي قسميں دو ہيں، جائز فعل، ناجائز فعل، ہم صرف جائز فعل کے افعال سے بحث کريں گے، کيونکہ قسم دوئم پر پنڈت کو آنجہاني اور جناب جوش مليح آبادي مبسوط کتابيں لکھ چکے ہيں۔ فعل کي دو قسميں فعل لازم اور فعل متعدي بھي ہيں، فعل لازم وہ ہے جو کرنا لازم ہو، مثلا افسر کي خوشامد، حکومت سے ڈرنا، بيوي سے جھوٹ بولنا وغيرہ۔ فعل متعدي عموما متعدي امراض کي طرح پھيل جاتا ہے ايک شخص کنبہ پروري کرتا ہے، دوسرے بھي کرتے ہيں، ايک رشوت ليتا ہے، دوسرے اس سے بڑھ کر ليتے ہيں، ايک بناسپتي گھي کا ڈبہ پچيس روپے ميں کرديتا ہے دوسرا گوشت کے ساڑھے بارہ روپے لگاتا ہے، لطف يہ ہے کہ دونوں اپنے فعل متعدي کو فعل لازم قرار ديتے ہيں، ان افعال ميں گھاٹے ميں صرف مفعل رہتا ہے، يعني عوام ، فائل کي شکايت کي جائے تو تو فائليں دب جاتي ہيں۔ ۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔



بیاض کیا ہے؟

بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے

اراکینِ بیاض

اسماء

عمیمہ

حارث

میرا پاکستان

طلحہ

باذوق

حلیمہ

بیا

میاں رضوان علی

بیاض میں شمولیت؟

اگر آپ بیاض میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ قوائد پڑھ لیں، بعد از اپنے نام اس ای میل پر بھیجیں۔

دیکھنے میں دشواری؟

اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔

گذشتہ تحریرات:

خزینہ گم گشتہ:

Powered by Blogger

بلاگ ڈیزائن: حنا امان

© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006