<body topmargin="0" leftmargin="0" bgcolor="#F9F8EC" bgproperties="fixed"><script type="text/javascript"> function setAttributeOnload(object, attribute, val) { if(window.addEventListener) { window.addEventListener('load', function(){ object[attribute] = val; }, false); } else { window.attachEvent('onload', function(){ object[attribute] = val; }); } } </script> <div id="navbar-iframe-container"></div> <script type="text/javascript" src="https://apis.google.com/js/platform.js"></script> <script type="text/javascript"> gapi.load("gapi.iframes:gapi.iframes.style.bubble", function() { if (gapi.iframes && gapi.iframes.getContext) { gapi.iframes.getContext().openChild({ url: 'https://www.blogger.com/navbar.g?targetBlogID\x3d12814790\x26blogName\x3d%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88+%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D8%B6\x26publishMode\x3dPUBLISH_MODE_BLOGSPOT\x26navbarType\x3dBLUE\x26layoutType\x3dCLASSIC\x26searchRoot\x3dhttps://bayaaz.blogspot.com/search\x26blogLocale\x3den_US\x26v\x3d2\x26homepageUrl\x3dhttp://bayaaz.blogspot.com/\x26vt\x3d2065659182679175016', where: document.getElementById("navbar-iframe-container"), id: "navbar-iframe" }); } }); </script>

Monday, July 31, 2006

بھارت

يہ بھارت ہے، گاندھي جي يہي پيدا ھوئے تھے، لوگ ان کي بڑي عزت کرتے تھے، ان کو مہاتما کہتے تھے، چناچہ مار کر ان کو يہي دفن کر ديا اور سمادھي بنا دي، دوسرے ملکوں کے بڑے لوگ آتے ہيں تو اس پر پھول چڑھاتے ھيں، اگر گاندھي جي نہ مرتے يعني نہ مارے جاتے تو پورے ھندوستان ميں عقيدت مندوں کيلئے پھول چڑھانے کي کوئي جگہ نہ تھي۔ يہي مسئلہ ہمارے يعني پاکستان والوں کے لئے بھي تھا، ہميں قائد اعظم کا ممنون ہونا چاہئيے کہ خود ہي مرگئے اور سفارتي نمائندوں کے پھول چڑھانے کي ايک جگہ پيدا کردي ورنہ شايد ہميں بھي ان کو مارنا ہي پڑتا۔ بھارت بڑا امن پسند ملک ہے جس کا ثبوت يہ ہے کہ اکثر ہمسايہ ملکوں کے ساتھ اس کے سيز فائر کے معاہدے ہوچکے ھيں،١٩٦٥ ميں ہمارے ساتھ ھوا اس سے پہلے چين کے ساتھ ھوا۔ بھارت کا مقدس جانورگائے ہے ، بھارتي اس کا دودھ پيتے ہيں، اسي کے گوبر سے چوکا ليپتے ہيں، اور اس کو قصائي کے ہاتھ بيچتے ہيں، اس لئيے کيونکہ وہ خود گائے کو مارنا يا کھانا پاپ سمجھتے ہيں۔ آدمي کو بھارت ميں مقدس جانور نہيں گنا جاتا۔ بھارت کے بادشاہوں ميں راجہ اشوک اور راجہ نہرو مشہور گزرے ہيں۔ اشوک سے ان کي لاٹ اور دھلي کا اشوکا ھوٹل يادگار ھيں، اور نھرو جي کي يادگار مسئلہ کشمير ہے جو اشوک کي تمام يادگاروں سے زيادہ مظبوط اور پائيدار معلوم ہوتا ہے ۔ راجہ نہرو بڑے دہر مہاتما آدمي تھے، صبح سويرے اٹھ کر شيرشک آسن کرتے تھے، يعني سر نيچے اور پير اوپر کرکے کھڑے ہوتے تھے، رفتہ رفتہ ان کو ہر معاملے کو الٹا ديکھنے کي عادت ہوگئي تھي۔ حيدر آباد کے مسئلہ کو انہوں نے رعايا کے نقطہ نظر سے اور کشمیر کو راجہ کے ۔ يوگ ميں طرح طرح کے آسن ہوتے ھيں، نا واقف لوگ ان کو قلابازياں سمجھتے ہيں، نہرو جي نفاست پسند بھي تھے دن ميں دو بار اپنے کپڑے اور قول بدلا کرتے تھے۔ ۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔



بارہواں کھلاڑی

خوشگوار موسم میں ان گنت تماشائی اپنی اپنی ٹیموں کو داد دینے آتے ہیں اپنے اپنے پیاروں کا حوصلہ بڑھاتے ہیں میں الگ تھلگ سب سے بارہویں کھلاڑی کو ہوٹ کرتا رہتا ہوں بارہواں کھلاڑی بھی کیا عجب کھلاڑی ہے کھیل ہوتا رہتا ہے شور مچتا رہتا ہے داد پڑتی رہتی ہے اور وہ الگ سب سے انتظار کرتا رہتا ہے ایک ایسی ساعت کا ایک ایسے لمحے کا جس میں سانحہ ہوجائے پھر وہ کھیلنے نکلے تالیوں کے جھرمٹ میں ایک جملہءِ خوش کن ایک نعرہءِ تحسین اس کے نام پر ہوجائے سب کھلاڑیوں کے ساتھ وہ بھی معتبر ہوجائے پر یہ کم ہی ہوتا ہے پھر بھی لوگ کہتے ہیں کھیل سے کھلاڑی کا عمر بھر کا رشتہ ہے عمر بھر کا یہ رشتہ چھوٹ بھی تو سکتا ہے آخری وِسل کے ساتھ ڈوب جانے والا دل ٹوٹ بھی تو سکتا ہے تم بھی افتخار عارف بارہویں کھلاڑی ہو انتظار کرتے ہو ایک ایسے لمحے کا ایک ایسی ساعت کا جس میں حادثہ ہوجائے جس میں سانحہ ہوجائے تم بھی افتخار عارف تم بھی ڈوب جاؤ گے تم بھی ٹوٹ جاؤ گے ۔۔۔افتخار عارف ۔۔۔



ايک دعا

يا اللہ کھانے کو روٹي دے پہننے کو کپڑا دے رہنے کو مکان دے عزت اور آسودگي کي زندگي دے مياں يہ بھي کوئي مانگنے کي چيزیں ہيں؟ کچھ اور مانگا کر بابا جي آپ کيا مانگتے ہيں؟ ميں؟ ميں يہ چيزيں نہيں مانگتا ميں تو کہتا ہوں اللہ مياں مجھے ايمان دے نيک عمل کرنے کي توفيق دے بابا جي آپ ٹھيک مانگتے ہيں انسان وہي چيز تو مانگتا ہے جو اس کے پاس نہيں ہوتي ۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔



Sunday, July 23, 2006

دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت

دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت جو ہوگئے ہو فسانہ تو ۔۔۔ یاد آؤ مت خیال و خواب میں پرچھائیاں سی ناچتی ہیں اب اس طرح تو مرے روح میں سماؤ مت زمیں کے لوگ تو کیا دو دلوں کی چاہت میں خدا بھی ہو تو اسے درمیان لاؤ مت تمہارا سَر نہیں طفلان رہ گزر کے لئیے دیارِسنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ مت سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے ہم اور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستاؤ مت ہمارے عہد میں یہ رسمِ عاشقی ٹھہری فقیر بن کے رہو اور صدا لگاؤ مت وہی لکھو جو لہو کی زباں سے ملتا ہے سخن کو پردہِ الفاظ میں چھپاؤ مت سپرد کر ہی دیا آتشِ ہنر کے تو پھر تمام خاک ہی ہوجاؤ کچھ بچاؤ مت ۔۔۔ عبید اللہ علیم ۔۔۔ ١٩٦٥ ۔۔۔



کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے

کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے کوئی لاکھ سمندر پی جائے کوئی لاکھ ستارے چھو آئے کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے کوئی زیست کا ساغر بھرتا ہے کوئی پھِر خالی ہو جاتا ہے کوئی لمحے بھر کو آتا ہے کوئی پل بھر میں کھو جاتا ہے کوئی پیاس کہیں رہ جاتی ہے کوئی آس کہیں رہ جاتی ہے ۔۔۔ عبیداللہ علیم ۔۔۔ ١٩٩٠ ۔۔۔



کسی اور کو یہ پتہ نہ ہو۔۔۔

میرے ساتھ تم بھی دعا کرو ، یوں کسی کے حق میں برا نہ ہو کہیں اور ہو نہ یہ حادثہ ، کوئی راستے میں جدا نہ ہو میرے گھر سے راستے کی سیج تک ، وہ اک آنسو کی لکیر ہے ذرا بڑھ کے چاند سے پوچھنا ، وہ اسی طرف سے گیا نہ ہو سر شام ٹھری ہوئی زمیں ، آسماں ہے جھکا ہوا اسی موڑ پر مرے واسطے ، وہ چراغ لے کر کھڑا نہ ہو وہ فرشتے آپ ہی ڈھونڈیئے ، کہانیوں کی کتاب میں جو برا کہیں نہ برا سنیں ، کوئی شخص ان سے خفا نہ ہو وہ وصال ہو کہ فراق ہو ، تری آگ مہکے گی ایک دن وہ گلاب بن کے کھلے گا کیا، جو چراغ بن کے جلا نہ ہو مجھے یوں لگا کے خاموش خوشبو کے ہونٹ تتلی نے چھو لیے انہی زرد پتوں کی اوٹ میں کوئی پھول سویا ہوا نہ ہو اسی احتیاط میں میں رہا اسی احتیاط میں وہ رہا وہ کہاں کہاں میرے ساتھ ہے ، کسی اور کو یہ پتہ نہ ہو



ایک شخص

کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے کوئی ایک لفظ تو ایسا ہو کہ قرار ہو کہیں ایسی رت بھی ملے ہمیں جو بہار ہو کبھی ایسا وقت بھی آئے کہ ہمیں پیار ہو! کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ چراغِ جاں اسے نور دے، اسے تاب دے، بنے کہکشاں کائی غم ہو جس کو قبا کریں غمِ جاوداں کوئی یوں قدم کو ملائے کہ بنے کارواں کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ہو میری راہِ گزرِ خیال میں کوئی پھول ہو میں سفر میں ہوں مرے پاؤں پہ کبھی دھول ہو مجھے شوق ہے مجھ سے بھی کبھی کوئی بھول ہو !غمِ ہجر ہو، شبِ ناز ہو، بڑا طول ہو۔۔۔ کوئی ایک شخص تو یوں ملے ۔۔۔ کہ قرار ہو کہ جو عکسِ ذات ہو، ہو بہو میرا آئینہ، میرے رو برو کوئی ربط کہ جس میں نا مَیں، نہ تُو !سرِ خامشی کوئی گفتگو ۔۔۔ کوئی ایک شخص تو یوں ملے کہ سکوں ملے بشکریہ اُنائیزہ



ایک سوال

میرے آباؤ اجداد نے حرمتِ آدمی کے لیے تاابد روشنی کے لیے کلمہِ حق کہا مقتلوں، قید خانوں، صلیبوں میں بہتا لہو ان کے ہونے کا اعلان کرتا رہا وہ لہو آدمی کی ضمانت بنا تاابد روشنی کی علامت بنا اور میں پابرہنہ سرِ کوچہِ احتیاج رزق کی مصلحت کا اسیر آدمی سوچتا رہ گیا جسم میں میرے ان کا لہو ہے تو پھر یہ لہو بولتا کیوں نہیں؟ ۔۔۔ افتخار عارف ۔۔۔



Tuesday, July 11, 2006

احمد نديم قاسمي کي ايک غزل

مروں تو ميں کسي چہرے ميں رنگ بھر جاؤں نديم کاش يہي ايک کام کر جاؤں يہ دشتِ ترکِ محبت، يہ تيرے قرب کي پياس جو اذن ہو تو تيري ياد سے گزر جاؤں ميرا وجود ميري روح کو پکارتا ہے تيري طرف بھي چلوں تو ٹھر ٹھر جاؤں تيرے جمال کا پر تو ہے سب حسينوں پر کہاں کہاں تجھے ڈھونڈوں کدھر کدھر جاؤں ميں زندہ تھا کہ تيرا انتظار ختم نہ ہو جو تو ملا ہے تو اب سوچتا ہوں مر جاؤں يہ سوچتا ہوں کہ ميں بت پرست کيوں نہ ہوا تجھے قريب جو پاؤں تو خدا سے ڈر جاؤں کسي چمن ميں بس اس خوف سے گزر نہ ہوا کسي کلي پہ نہ بھولے سے پاؤں دھر جاؤں يہ جي ميں آتا ہے کہ تخليقِ فن کے لمحوں ميں کہ خون بن کے رگِ سنگ میں اتر جاؤں



Thursday, July 06, 2006

دلِ محترم کوئی اور غم ؟

اک دل کا درد ہے کہ رہا زندگی کے ساتھ اک دل کا چین تھا کہ سدا ڈھونڈتے رہے ہر جلوہ مقابل نظر آتا ہے مجھے ذرہ بھی تو منزل نظر آتا ہے مجھے فیضانِ غمِ یار کے قربان جاؤں ہر پھول میں اک دل نظر آتا ہے مجھے خدا کرے میری طرح تیرا کسی پہ آئے دل تو بھی جگر کو تھام کے کہتا پھرے کہ ہائے دل روندو نہ میری قبر کو اِس میں دبی ہیں حسرتیں رکھنا قدم سنبھال کے دیکھو کچل نہ جائے دل ظرف کی بات ہے کانٹوں کی خلش دل میں لئے لوگ ملتے ہیں ترو تازہ گلابوں کی طرح



Saturday, July 01, 2006

ضرب المثل اشعار

محاورہ عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے ۔۔۔۔۔ چل ساتھ کہ حسرت دلِ محروم سے نکلے عاشق کا جنازہ ہے ذرا دھوم سے نکلے (فدوی عظیم آبادی) ========== محاورہ چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو ۔۔۔۔۔ حیات لے کے چلو، کائینات لے کے چلو چلو تو سارے زمانے کو ساتھ لے کے چلو (مخدوم محی الدین) ========== محاورہ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے ۔۔۔۔۔ خنجر چلے کسی پہ تڑپتے ہیں ہم امیرؔ سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے (امیر مینائی) ========== محاورہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر ۔۔۔۔۔ تھا جو ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا کہ غلامی میں بدل جاتا ہے قوموں کا ضمیر (اقبال) ========== محاورہ جو چپ رہے گی زبان خنجر ، لہو پکارے گا آستین کا ۔۔۔۔۔ قریب ہے یارو روزِ محشر چھپے گا کشتوں کا خون کیوں کر جو چپ رہے گی زبانِ خنجر لہو پکارے گا آستیں کا (امیر مینائی) ==========



بیاض کیا ہے؟

بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے

اراکینِ بیاض

اسماء

عمیمہ

حارث

میرا پاکستان

طلحہ

باذوق

حلیمہ

بیا

میاں رضوان علی

بیاض میں شمولیت؟

اگر آپ بیاض میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ قوائد پڑھ لیں، بعد از اپنے نام اس ای میل پر بھیجیں۔

دیکھنے میں دشواری؟

اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔

گذشتہ تحریرات:

خزینہ گم گشتہ:

Powered by Blogger

بلاگ ڈیزائن: حنا امان

© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006