<body topmargin="0" leftmargin="0" bgcolor="#F9F8EC" bgproperties="fixed"><script type="text/javascript"> function setAttributeOnload(object, attribute, val) { if(window.addEventListener) { window.addEventListener('load', function(){ object[attribute] = val; }, false); } else { window.attachEvent('onload', function(){ object[attribute] = val; }); } } </script> <div id="navbar-iframe-container"></div> <script type="text/javascript" src="https://apis.google.com/js/platform.js"></script> <script type="text/javascript"> gapi.load("gapi.iframes:gapi.iframes.style.bubble", function() { if (gapi.iframes && gapi.iframes.getContext) { gapi.iframes.getContext().openChild({ url: 'https://www.blogger.com/navbar.g?targetBlogID\x3d12814790\x26blogName\x3d%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88+%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D8%B6\x26publishMode\x3dPUBLISH_MODE_BLOGSPOT\x26navbarType\x3dBLUE\x26layoutType\x3dCLASSIC\x26searchRoot\x3dhttps://bayaaz.blogspot.com/search\x26blogLocale\x3den_US\x26v\x3d2\x26homepageUrl\x3dhttp://bayaaz.blogspot.com/\x26vt\x3d2065659182679175016', where: document.getElementById("navbar-iframe-container"), id: "navbar-iframe" }); } }); </script>

Saturday, October 28, 2006

میری تیری نگاہ میں

میری تیری نگاہ میں جو لاکھ انتظار ہیں جو میرے تیرے تن بدن میں لاکھ دل فگار ہیں جو میری تیری انگلیوں کی بے حسی سے سب قلم نزار ہیں جو میرے تیرے شہر کی ہر اک گلی میں میرے تیرے نقشِ پا کے بے نشاں مزار ہیں جو میری تیری رات کے ستارے زخم زخم ہیں جو میری تیری صبح کے گلاب چاک چاک ہیں یہ زخم سارے بے دوا یہ چاک سارے بے رفو کسی پہ راکھ چاند کی کسی پہ اوس کا لہو یہ ہے بھی یا نہیں ، بتا یہ ہے کہ محض جال ہے میرے تمھارے عنکبوتِ وہم کا بُنا ہوا جو ہے تو اسکا کیا کریں نہیں ہے تو بھی کیا کریں بتا، بتا بتا، بتا ۔۔۔ فیض احمد فیض ۔۔۔



Monday, October 09, 2006

قومی ترانہ

پاک سرزمین شاد باد كشور حسين شاد باد تو نشان عزم عالی شان ارض پاکستان مرکز یقین شاد باد پاک سرزمین کا نظام قوت اخوت عوام قوم ، ملک ، سلطنت پائندہ تابندہ باد شاد باد منزل مراد پرچم ستارہ و ہلال رہبر ترقی و کمال ترجمان ماضی شان حال ! جان استقبال سایۂ خدائے ذوالجلال



Sunday, October 08, 2006

ابھی دریا میں پانی ہے

ابھی دریا میں پانی ہے فضائے بے یقینی کیوں اتر آئی ہے سانسوں میں ابھی تو اپنی مٹی میں نمو کا وصف زندہ ہے ابھی جھرنے سلامت ہیں ابھی دریا میں پانی ہے ابھی جھیلیں نہیں سوکھیں ابھی جنگل نہیں اجڑے فضاؤں میں ابھی تک بادلوں کا آنا جانا ہے ہواؤں میں نمی کا سلسلہ تادیر ہے قائم ابھی تک فصلِ گل کا دامن شاداب ہے باقی ابھی تک قطرہِ شبنم کی آب وتاب ہے باقی ہمارے نام کے دانے اگا کرتے ہیں کھیتوں میں ہماری سرزمیں کی پھول سے نسبت ابھی تک ہے ابھی تک تتلیاں پرواز کرتی ہیں گلستاں میں حرارت زندگی کی برف نے ابھی تک نہیں چھینی سلگتے مہر نے برسات کا موسم بنہیں چھینا ابھی صحراؤں کے عفریت سے محفوظ ہیں دریا ابھی نخلِ تمنا کی ہری شاخیں سلامت ہیں ابھی قدموں کے نیچے ماں صفت مٹی کی حدت ابھی جھرنے سلامت ہیں ابھی دریا میں پانی ہے ۔۔۔ رفیع الدین راز ۔۔۔



Friday, October 06, 2006

کہاں کسی کی قیامت میں مارا جاؤں گا میں کم شناس مروت ميں مارا جاؤں گا
میں مارا جاؤں گا پہلے کسی فسانے میں پر اس کے بعد حقیقت میں مارا جاؤں گا
مجھے بتایا ہوا ہے میری چھٹی حس نے میں اپنے عہدِ خلافت میں مارا جاؤں گا
میرا یہ خون میرے دشمنوں کے سر ہوگا میں دوستوں کی حراست ميں مارا جاؤں گا
یہاں کمان اٹھانا میری ضرورت ہے وگرنہ میں بھی شرافت میں مارا جاؤں گا
میں چپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر گواہی دی تو عدالت میں مارا جاؤں گا
فراغ میرے لۓ موت کی علامت ہے میں اپنی پہلی فراغت میں مارا جاؤں گا
نہیں مروں گا کسی جنگ میں یہ سوچ لیا میں اب کی بار محبت میں مارا جاؤں گا
رانا سعید دوشی، واہ کینٹ



بیاض کیا ہے؟

بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے

اراکینِ بیاض

اسماء

عمیمہ

حارث

میرا پاکستان

طلحہ

باذوق

حلیمہ

بیا

میاں رضوان علی

بیاض میں شمولیت؟

اگر آپ بیاض میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ قوائد پڑھ لیں، بعد از اپنے نام اس ای میل پر بھیجیں۔

دیکھنے میں دشواری؟

اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔

گذشتہ تحریرات:

خزینہ گم گشتہ:

Powered by Blogger

بلاگ ڈیزائن: حنا امان

© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006