<body topmargin="0" leftmargin="0" bgcolor="#F9F8EC" bgproperties="fixed"><script type="text/javascript"> function setAttributeOnload(object, attribute, val) { if(window.addEventListener) { window.addEventListener('load', function(){ object[attribute] = val; }, false); } else { window.attachEvent('onload', function(){ object[attribute] = val; }); } } </script> <div id="navbar-iframe-container"></div> <script type="text/javascript" src="https://apis.google.com/js/platform.js"></script> <script type="text/javascript"> gapi.load("gapi.iframes:gapi.iframes.style.bubble", function() { if (gapi.iframes && gapi.iframes.getContext) { gapi.iframes.getContext().openChild({ url: 'https://www.blogger.com/navbar.g?targetBlogID\x3d12814790\x26blogName\x3d%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88+%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D8%B6\x26publishMode\x3dPUBLISH_MODE_BLOGSPOT\x26navbarType\x3dBLUE\x26layoutType\x3dCLASSIC\x26searchRoot\x3dhttps://bayaaz.blogspot.com/search\x26blogLocale\x3den_US\x26v\x3d2\x26homepageUrl\x3dhttp://bayaaz.blogspot.com/\x26vt\x3d2065659182679175016', where: document.getElementById("navbar-iframe-container"), id: "navbar-iframe" }); } }); </script>

Tuesday, November 07, 2006

ناممکن

وہ کہہ رہی تھی کہ سب کچھ ہے ساعتِ موجود مناؤ شوق سے جو بھی خوشی میسر ہو وہ کہہ رہی تھی کہ ماضی کا غم بھلا ڈالو نہ لب پہ آہ نہ آنکھوں میں ‌اشک ہو وہ کہہ رہی تھی کہ کرو تم نہ فکرِ مستقبل فلک جو رنگ دکھائے گا دیکھا جائے گا وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔ مگر میں عمل نہ کر پایا کہ میرا خاطرِ حساس میرے بس میں نہیں مجھے ہے ربطِ غمِ دوش و فکرِ فردا سے میں اپنا گزرا زمانہ بھلا نہیں سکتا !!!میں فکرِ فردا سے دامن چھڑا نہیں سکتا ۔۔۔ ظہور احمد فاتح ۔۔۔ عکس کے دشتِ تنہائی سے



Thursday, November 02, 2006

فرض کرو

فرض کرو ہم تارے ہوتے اک دوجے کو دور دور سے دیکھ دیکھ کر جلتے بجھتے اور پھر اک دن شاخِ فلک سے گرتے اور تاریک خلاؤں میں کھو جاتے دریا کے دو دھارے ہوتے اپنی اپنی موج میں بہتے اور سمندر تک اس اندھی، وحشی اور منہ زور مسافت کے جادو میں تنہا رہتے فرض کرو ہم بھور سمے کے پنچھی ہوتے اڑتے اڑتے اک دوجے کو چھوتے اور پھر کھلے گگن کی گہری اور بے وفا آنکھوں میں کھو جاتے ,اور باہر کے جھونکے ہوتے موسم کی اک بے نقش سے خواب میں ملتے ملتے اور جدا ہو جاتے خشک زمینوں کے ہاتھوں پر سبز لکیریں کندا کرتے اور ان دیکھے سپنے بوتے اپنے اپنے آنسو رو کر چین سے سوتے، !فرض کرو ہم جو کچھ اب ہیں وہ نہ ہوتے ۔۔۔ ۔۔۔ امجد اسلام امجد ۔۔۔ عکس کے دشتِ تنہائی سے



بیاض کیا ہے؟

بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے

اراکینِ بیاض

اسماء

عمیمہ

حارث

میرا پاکستان

طلحہ

باذوق

حلیمہ

بیا

میاں رضوان علی

بیاض میں شمولیت؟

اگر آپ بیاض میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ قوائد پڑھ لیں، بعد از اپنے نام اس ای میل پر بھیجیں۔

دیکھنے میں دشواری؟

اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔

گذشتہ تحریرات:

خزینہ گم گشتہ:

Powered by Blogger

بلاگ ڈیزائن: حنا امان

© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006