<body topmargin="0" leftmargin="0" bgcolor="#F9F8EC" bgproperties="fixed"><script type="text/javascript"> function setAttributeOnload(object, attribute, val) { if(window.addEventListener) { window.addEventListener('load', function(){ object[attribute] = val; }, false); } else { window.attachEvent('onload', function(){ object[attribute] = val; }); } } </script> <div id="navbar-iframe-container"></div> <script type="text/javascript" src="https://apis.google.com/js/platform.js"></script> <script type="text/javascript"> gapi.load("gapi.iframes:gapi.iframes.style.bubble", function() { if (gapi.iframes && gapi.iframes.getContext) { gapi.iframes.getContext().openChild({ url: 'https://www.blogger.com/navbar.g?targetBlogID\x3d12814790\x26blogName\x3d%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88+%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D8%B6\x26publishMode\x3dPUBLISH_MODE_BLOGSPOT\x26navbarType\x3dBLUE\x26layoutType\x3dCLASSIC\x26searchRoot\x3dhttps://bayaaz.blogspot.com/search\x26blogLocale\x3den_US\x26v\x3d2\x26homepageUrl\x3dhttp://bayaaz.blogspot.com/\x26vt\x3d2065659182679175016', where: document.getElementById("navbar-iframe-container"), id: "navbar-iframe" }); } }); </script>

Sunday, June 25, 2006

غزل

جس سر کو غرور آج ہے ياں تاج وري کا کل اس پر يہيں شور ہے پھر نوحہ گري کا

آفاق کي منزل سے گيا کون سلامت اسباب لٹا راہ ميں ياں ہر سفري کا

زنداں ميں بھي شورش نہ گئ اپنے جنوں کي اب سنگ مداوا ہے اس آشفتہ سري کا

لے سانس بھي آہستہ کہ نازک ہے بہت کام آفاق کي اس کار گہ شيشہ گري کا

ٹک مير جگر سوختہ کي جلد خبر لے کيا يار بھروسہ ہے چراغ سحري کا



Wednesday, June 14, 2006

شجرہِ نسب

پروفیسر محمد ایوب قادری ایک محقق آدمی ہیں۔ شجرہِ نسب مانگ رہے تھے۔ ہمارے ہاں کہاں سے آتا؟ ہم نے کہا کہ بزرگوں میں ہمیں اپنے والد کا نام یاد ہے یا ایک اور مورثِ اعلٰی کا کہ اپنے زمانے کے مشہور پیغمبر تھے۔ بولے کون؟ ہم نے حضرت آدم علیہ السلام کا نام بتایا تو عقیدت سے ادھ موئے ہو گئے۔ ۔۔۔ ابنِ انشاء ۔ “خمار گندم“ ۔۔۔



سلسلے خیالوں کے

!گزرتے لمحوں مجھے بتاؤ زندگی کا اصول کیا ہے تمام ہاتھوں میں آئینے ہیں کون کس سے چھپتا ہے اگر صدا کا وجود کانوں سے منسلک ہے تو کون خوشبو بن کر بولتا ہے اگر سمندر کی حد ساحل ہے تو کون آنکھوں میں پھیلتا ہے تمام چیزیں اگر ملتی ہیں تو کون چیزوں سے ماورا ہے کِسے خبر ۔۔۔ بدلتی رُت نے پرانے پتوں سے کیا کہا یہ کون بادل سے پوچھے کہ اتنے سال کہاں رہا یہ جو آج دیکھا ہے وہ کل نہ ہوگا کوئی لمحہ اٹل نہ ہوگا !گزرتے ہوئے لمحوں مجھے بتاؤ زندگی کا اصول کیا ہے ۔۔۔ امجد اسلام امجد ۔۔۔



Tuesday, June 13, 2006

ایک خیال ، تین شاعر

میں خیال ہوں کسی اور کا مجھے سوچتا کوئی اور ہے سرِ آئینہ میرا عکس ہے ، پسِ آئینہ کوئی اور ہے (سلیم کوثر) جسے چاہا نہیں تھا وہ مقدر بن گیا اپنا کہاں بنیاد رکھی تھی کہاں گھر بن گیا اپنا (اعتماد صدیقی) جسے چاہا تھا وہ ملا نہیں جو مجھے ملا وہ مرا نہیں مرا ہمسفر کوئی اور تھا کوئی دوسرا مرے ساتھ ہے (احمد کمال حشمی)



Monday, June 12, 2006

بارش

بارش کی آواز کو سن کر ,پیڑوں کی آغوش میں سہمی شاخیں جھومنے لگتی ہیں گردِ ملال میں لپٹے پتے، جاگ اٹھتے ہیں اور ہوا کی پینگوں میں سرگوشیاں جھولنے لگتی ہیں کھڑکی کی شیشوں پر جس دم پہلی بوندیں پڑتی ہیں تو بارش کی آواز گھروں میں خوشبو بن کر در آتی ہے دنیا کے بے انت دکھ اور اندیشوں کی اُڑتی مٹی بیٹھتی ہے اور بجھے دلوں کی اقلیموں میں شمعیں جلنے لگتی ہیں راہیں چلنے لگتی ہیں بارش کی آواز کو سن کر سینے کے آنگن میں رکھے بوجھ کی ڈھیری ہولے ہولے گھٹتی ہے تو سانسیں ہلکی ہوجاتی ہیں رم جھم کی آواز میں جیسے سب آوازیں کھو جاتی ہیں بارش کی آواز کو سن کر جاگتی آنکھیں سپنوں کی دہلیز سے اپنے ریزہ ریزہ خواب اٹھائے اور انہیں ترتیب میں لانے لگتی ہیں مٹتی بنتی تصویریں، پھر دھیان میں آنے لگتی ہیں !بارش کی آواز کو سن کر ۔۔۔ امجد اسلام امجد ۔۔۔



تم نے بھی کونسا چاہا تھا مجھے

تم نے بھی کونسا چاہا تھا مجھے میری باتیں بھی غلط، میرے ارادے بھی غلط بے وفائی کا یہ خعد ساختہ بہتان بھی تسلیم مجھے یہ بھی مانا کہ غم دہرجواں تھا‘ تو غم جواں کو مری آنکھ کے آنسو نہ ملے جب زمانوں کی یہ بے مہر ہوائیں مری سوچوں کو جلا دیتی ہیں میں سوچتا ہوں جب غم دہر کی پلکیں تری جانب مری شدت کو گھٹا دیتی ہیں میں سوچتا ہوں جب کبھی اپنی جفائیں مجھے خود اپنی نگاہوں میں گرا دیتی ہیں میں سوچتا ہوں تم نے بھی کون سا چاہا تھا مجھے ۔۔۔ خالد شریف ۔۔۔



Wednesday, June 07, 2006

موت کی تلاش میں

موت کی تلاش میں ابھی اور جینا ہے ,زندگی سے ابھی روح کشید کرنی ہے ! ابھی مجھے جینا ہے اسی جینے کی کشمکش میں مجھے پِھر مرنا ہے میں کون ہوں؟ راہِ زیست کی طلب کیا ہے؟ ابھی مجھے یہ جاننا ہے اور اس کے لئیے خوف کو آنسوؤوں سے مٹانا ہے ماضی کو مٹا کر اپنا کَل چمکانا ہے موت کی تلاش میں ابھی اور جینا ہے اسی جینے کی کشمکش میں !مجھے پِھر مرنا ہے اسماء translated "In search of death".



بیاض کیا ہے؟

بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے

اراکینِ بیاض

اسماء

عمیمہ

حارث

میرا پاکستان

طلحہ

باذوق

حلیمہ

بیا

میاں رضوان علی

بیاض میں شمولیت؟

اگر آپ بیاض میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ قوائد پڑھ لیں، بعد از اپنے نام اس ای میل پر بھیجیں۔

دیکھنے میں دشواری؟

اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔

گذشتہ تحریرات:

خزینہ گم گشتہ:

Powered by Blogger

بلاگ ڈیزائن: حنا امان

© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006