|
![]() |
Sunday, October 08, 2006ابھی دریا میں پانی ہے فضائے بے یقینی کیوں اتر آئی ہے سانسوں میں ابھی تو اپنی مٹی میں نمو کا وصف زندہ ہے ابھی جھرنے سلامت ہیں ابھی دریا میں پانی ہے ابھی جھیلیں نہیں سوکھیں ابھی جنگل نہیں اجڑے فضاؤں میں ابھی تک بادلوں کا آنا جانا ہے ہواؤں میں نمی کا سلسلہ تادیر ہے قائم ابھی تک فصلِ گل کا دامن شاداب ہے باقی ابھی تک قطرہِ شبنم کی آب وتاب ہے باقی ہمارے نام کے دانے اگا کرتے ہیں کھیتوں میں ہماری سرزمیں کی پھول سے نسبت ابھی تک ہے ابھی تک تتلیاں پرواز کرتی ہیں گلستاں میں حرارت زندگی کی برف نے ابھی تک نہیں چھینی سلگتے مہر نے برسات کا موسم بنہیں چھینا ابھی صحراؤں کے عفریت سے محفوظ ہیں دریا ابھی نخلِ تمنا کی ہری شاخیں سلامت ہیں ابھی قدموں کے نیچے ماں صفت مٹی کی حدت ابھی جھرنے سلامت ہیں ابھی دریا میں پانی ہے ۔۔۔ رفیع الدین راز ۔۔۔ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
![]() |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
2: تبصرہ جات
magar bohat kuch badal gea...
dharti se nisbat wohi ..magar yadain talkh...
but it is very nice indeed....aj dil udas hay..bohat... pata ni aj un k liay kia yadain laii hogi jo slamat bach gaye thay....
ye jheelain..jharnay..ye sb unko kesay lagtay hongay? ab?
10/09/2006 12:32:00 AM
.......
This piece was so touching that I read it again and again till posted it here
10/12/2006 04:02:00 PM
Post a Comment
<< صفحہ اول