|
Monday, September 11, 2006ہے دعا یاد مگر حرفِ دعا یاد نہیں میرے نغمات کو اندازِ دعا یاد نہیں ہم نے جن کے لئیے راہوں میں بچھایا تھا لہو ہم سے کہتے ہیں وہی، عہدِ وفا یاد نہیں زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں میں نے پلکوں سے درِ یار پہ دستک دی ہے میں وہ سائل ہوں جسے کوئی صدا یاد نہیں کیسے بھر آئیں سرِ شام کسی کی آنکھیں کیسے تھرائی چراغوں کی ضیاء یاد نہیں صرف دھندلاتے ستارے کی چمک دیکھی ہے کب ہوا، کون ہوا، مجھ سے جدا، یاد نہیں آؤ اک سجدہ کریں عالمِ مدہوشی میں لوگ کہتے ہیں کہ ساغر کو خدا یاد نہیں ۔۔۔ ساغر صدیقی ۔۔۔ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
1: تبصرہ جات
زندگی جبرِ مسلسل کی طرح کاٹی ہے
جانے کس جرم کی پائی ہے سزا، یاد نہیں
يہ غزل ہم نے بيس سال قبل پڑھي تھي اور اس کا يہ شعر ہميں بہت پسند آيا تھا۔
9/11/2006 05:33:00 AM
Post a Comment
<< صفحہ اول