|
Monday, June 12, 2006بارش کی آواز کو سن کر ,پیڑوں کی آغوش میں سہمی شاخیں جھومنے لگتی ہیں گردِ ملال میں لپٹے پتے، جاگ اٹھتے ہیں اور ہوا کی پینگوں میں سرگوشیاں جھولنے لگتی ہیں کھڑکی کی شیشوں پر جس دم پہلی بوندیں پڑتی ہیں تو بارش کی آواز گھروں میں خوشبو بن کر در آتی ہے دنیا کے بے انت دکھ اور اندیشوں کی اُڑتی مٹی بیٹھتی ہے اور بجھے دلوں کی اقلیموں میں شمعیں جلنے لگتی ہیں راہیں چلنے لگتی ہیں بارش کی آواز کو سن کر سینے کے آنگن میں رکھے بوجھ کی ڈھیری ہولے ہولے گھٹتی ہے تو سانسیں ہلکی ہوجاتی ہیں رم جھم کی آواز میں جیسے سب آوازیں کھو جاتی ہیں بارش کی آواز کو سن کر جاگتی آنکھیں سپنوں کی دہلیز سے اپنے ریزہ ریزہ خواب اٹھائے اور انہیں ترتیب میں لانے لگتی ہیں مٹتی بنتی تصویریں، پھر دھیان میں آنے لگتی ہیں !بارش کی آواز کو سن کر ۔۔۔ امجد اسلام امجد ۔۔۔ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
0: تبصرہ جات
Post a Comment
<< صفحہ اول