|
Friday, May 12, 2006ذرا نظر اٹھا کر آسمان کي طرف ديکھو، کتنا اونچا ہے۔ يہي وجہ ہے کہ کوئي اس سے گرے تو بہٹ چوٹ آتي ہے ۔بعض لوگ آسمان سے گرے ہيں تو کھجور ميں اٹک جاتے ہيں ۔نہ نيچے اتر سکتے ہيں ، نہ دوبارہ آسمان پر چڑھ سکتے ہيں ۔وہيں بيٹھے کھجوريں کھاتے رہتے ہيں۔ليکن کھجوريں بھي تو کہيں کہیں ہوتي ہيں۔ ہر جگہ نہيں ہوتيں۔ کہتے ہيں پہلے زمانے ميں آسمان اتنا اونچا نہيں ہوتا تھا۔ غالب نام کا شاعر جو سو سال پہلے ہوا ہے ۔ايک جگہ کسي سے کہتا ے۔ کيا آسمان کے بھي برابر نہيں ہوں ميں؟ جوں جوں چيزوں کي قيمتيں اونچي ہوتي گئيں آسمان ان سے باتيں کرنے کے لئے اونچا اٹھتا چلا گيا۔ اب نہ چيزوں کي قيمتيں نيچے آئيں نہ آسمان نيچے اترے۔ايک زمانے ميں آسمان پر صرف فرشتے رہا کرتے تھے۔پھر ہمہ شما جانے لگے جو خود نہ جا سکتے تھے ان کا دماغ چلا جاتا تھا۔ يہ نيچے زمين پر دماغ کے بغير ہي کام چلاتے تھے ۔بڑي حد تک اب بھي يہي صورت ۔راہ چلتے ميں آسمان کي طرف نہيں ديکھنا چاھئيے تا کہ ٹھوکر نہ لگے جو زمين کي طرف ديکھ کر چلتا ہے اس کے ٹھوکر نہيں لگتي۔ ۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
0: تبصرہ جات
Post a Comment
<< صفحہ اول