|
Sunday, July 23, 2006دکھے ہوئے ہیں ہمیں اور اب دکھاؤ مت جو ہوگئے ہو فسانہ تو ۔۔۔ یاد آؤ مت خیال و خواب میں پرچھائیاں سی ناچتی ہیں اب اس طرح تو مرے روح میں سماؤ مت زمیں کے لوگ تو کیا دو دلوں کی چاہت میں خدا بھی ہو تو اسے درمیان لاؤ مت تمہارا سَر نہیں طفلان رہ گزر کے لئیے دیارِسنگ میں گھر سے نکل کے جاؤ مت سوائے اپنے کسی کے بھی ہو نہیں سکتے ہم اور لوگ ہیں لوگو ہمیں ستاؤ مت ہمارے عہد میں یہ رسمِ عاشقی ٹھہری فقیر بن کے رہو اور صدا لگاؤ مت وہی لکھو جو لہو کی زباں سے ملتا ہے سخن کو پردہِ الفاظ میں چھپاؤ مت سپرد کر ہی دیا آتشِ ہنر کے تو پھر تمام خاک ہی ہوجاؤ کچھ بچاؤ مت ۔۔۔ عبید اللہ علیم ۔۔۔ ١٩٦٥ ۔۔۔ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
0: تبصرہ جات
Post a Comment
<< صفحہ اول