|
Saturday, August 19, 2006اگرچہ ۔۔۔ جھیلوں اور ایسے بڑے پانیوں کے دوسرے کنارے ہمیشہ زیادہ حسین اور دلفریب دکھائی دیتے ہیں لیکن اس بڑے پانی کا یہ کنارہ جہاں ہم تھے ۔۔۔ بقول یوسف بس “غدر“ تھا ۔۔۔ بڑے پانی کی گہری نیلگوں ندی سے بلند اس کنارے کی جو ہموار سطح تھی وہاں جو گھاس سرسراتی تھی ۔۔۔ وہ دوپہر کی دھوپ میں مایا زیوروں کے سنہری پن اور ساسانی جام کے سونے کی قدامت سے بھی بڑھ کر سنہری اور روشن تھی ۔۔۔ اس کی زرد خزاں رنگت ایسی تھی کہ اس پر دنیا کا سب سے بڑا مصور بھی اگر صرف ایک سٹروک لگا کر اس کے حسنِ کرشمہ ساز کو مکمل کرنا چاہے ۔۔۔ وہ بے شک چاند کے زرد تھال میں سے رنگ نکال لے ۔۔۔ ابھرتے سورج کی زردی میں اپنا برش ڈبو لے ۔۔۔ تب بھی اسے بڑے پانی کی اس سنہری گھاس میں کہیں سے ایک ایسا مقام نہیں ملے گا جس پر وہ یہ سٹروک لگا کر تصویر کو مکمل کرے ۔۔۔ کیونکہ تصویر تکمیل کی حدوں سے بھی آگے جا کر اپنی زردی اور سنہرے پن میں ۔۔۔ کسی بھی مصور کے بس سے باہر ہو چکی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ مستنصر حسین تاڑر کی “دیوسائی“ سے اک اقتباس ۔۔۔ تصویر کے لئیے آوارہ کا شکریہ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
1: تبصرہ جات
مزہ آگیا آپکی یہ پوسٹ پڑھ کر۔
8/19/2006 05:34:00 PM
Post a Comment
<< صفحہ اول