|
Friday, August 18, 2006ايک تھي چڑيا، ايک تھا چڑا، چڑيا لائي دال کا دانا، چڑا لايا چاول کا دانا، اس سے کچھڑي پکائي، دونوں نے پيٹ بھر کر کھائي، آپس ميں اتفاق ہو تو ايک ايک دانے کي کچھڑي بھي بہت ہوتي ہے۔ چڑا بيٹھا اونگھ رہا تھا کہ اس کے دل ميں وسوسہ آيا کہ چاول کا دانا بڑا ہوتا ہے، دال کا دانا چھوٹا ہوتا ہے۔ پس دوسرے روز کچھڑي پکي تو چڑے نے کہا اس میں چھپن حصے مجھے دے، چواليس حصے تو لے، اے باگھوان پسند کر يا نا پسند کر ۔ حقائق سے آنکھ مت بند کر ، چڑے نے اپني چونچ ميں سے چند نکات بھي نکالے، اور بي بي نے آگے ڈالے۔ بي بي حيران ہوئي بلکہ رو رو کر ہلکان ہوئي کہ اس کے ساتھ تو ميرا جنم کا ساتھ تھا ليکن کيا کر سکتي تھي۔ دوسرے دن پھر چڑيا دال کا دانا لائي اور چڑا چاول کا دانا لايا۔ دونوں نے الگ الگ ہنڈيا چڑھائي ، کچھڑي پکائي ، کيا ديکھتے ہیں کہ دو ہي دانے ہيں، چڑے نے چاول کا دانا کھايا، چڑيا نے دال کا دانا اٹھايا ۔ چڑے کو خالي چاول سے پيچش ہوگئي چڑيا کو خالي دال سے قبض ہو گئي۔ دونوں ايک حکيم کے پاس گئے جو ايک بِلا تھا، اس نے دونوں کے سروں پر شفقت کا ہاتھ پھيرا اور پھيرتا ہي چلا گيا۔ ديکھا تو تھے دو مشت پر يہ کہاني بہت پرانے زمانے کي ہے۔ آج کل تو چاول ايکسپورٹ ہو جاتا ہے اور دال مہنگي ہے۔ اتني کہ وہ لڑکياں جو مولوي اسماعيل ميرٹھي کے زمانے ميں دال بگھارا کرتي تھيں۔ آج کل فقط شيخي بگھارتي ہيں۔ ۔۔۔ ابن انشاء ۔۔۔ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
0: تبصرہ جات
Post a Comment
<< صفحہ اول