|
![]() |
Wednesday, August 31, 2005تپتی زمیں پر آنسوؤں کے پیار کی صورت ہوتی ہیں چاہتوں کی صورت ہوتی ہیں بیٹیاں خوبصورت ہوتی ہیں دل کے زخم مٹانے کو آنگن میں اتری بوندوں کی طرح ہوتی ہیں بیٹیاں پھولوں کی طرح ہوتی ہیں نامہرباں دھوپ میں سایہ دیتی نرم ہتھیلیوں کی طرح ہوتی ہیں بیٹیاں تتلیوں کی طرح ہوتی ہیں چڑیوں کی طرح ہوتی ہیں تنہا اداس سفر میں رنگ بھرتی رداؤں جیسی ہوتی ہیں بیٹیاں چھاؤں جیسی ہوتی ہیں کبھی بلا سکیں، کبھی چھپا سکیں بیٹیاں اَن کہی صداؤں جیسی ہوتی ہیں کبھی جھکا سکیں، کبھی مٹا سکیں بیٹیاں اناؤں جیسی ہوتی ہیں کبھی ہنسا سکیں، کبھی رلا سکیں کبھی سنوار سکیں، کبھی اجاڑ سکیں بیٹیاں تو تعبیر مانگتی دعاؤں جیسی ہوتی ہیں حد سے مہرباں، بیان سے اچھی بیٹیاں وفاؤں جیسی ہوتی ہیں والسلام اسماء Tuesday, August 30, 2005محبتوں جیسا ، چاہت سا دکھ ہے سکون کی طرح، راحت سا دکھ ہے یہ دکھ ہجرت کا، مسافرت کا دکھ ہے مہاجر پرندوں کا، یہ بدلتی رُت کا دکھ ہے فصیلِ جاں میں ٹھہرتا ہوا سا، رکتا سا دکھ ہے اجنبی دیسوں کے لئیے اذنِ سفر ہو کہ اجنبی چہروں کا ساتھ یہ ہر شہر کا دکھ ہے یہ ہر گھر کا دکھ ہے بہار کے موسم میں رونے کا خزاں میں ہنسنے کا دکھ ہے یہ ہر تتلی کا دکھ ہے یہ ہر بیٹی کا دکھ ہے ۔۔۔۔۔۔ کچھ دن پہلے تین نظمیں میری نظر سے گزریں، یہ ان میں سے ایک ہے۔ گو کہ شاعر کا تو نہیں پتا لیکن تینوں ہی بیٹی کے ہجر سے گزری بے حد خوبصورت احساسات کو ظاہر کر رہی ہیں۔مجھے اچھی لگی ۔۔۔ شاید آپ کو بھی! ,والسلام اسماء Saturday, August 27, 2005جب بھی مجھے آمد ہوتی ہے بیگم میری بجنگ آمد ہوتی ہے بڑھاپے کی نشانی صدا یاد رکھنا بیوی گھر میں خاوند ہوتی ہے محبت نہیں پابند کسی اصول کی یہ بن کسٹم کے برآمد ہوتی ہے پتھر دلوں کو پل میں موم کرے ہایے کیا چیز خوشامد ہوتی ہے کمر بستہ ہو جاو واہ واہ کرنے والو محفل میں شاعر کی آمد ہوتی ہے Thursday, August 25, 2005گر مجھے اس کا یقین ھو مرے ھمدم ، مرے دوست گر مجھے اس کا یقین ھو کہ ِترے دل کی تھکن تیری آنکھوں کی اداسی ، ترے سینے کی جلن میری دل جوئی ، مرے پیار سے مٹ جائے گی گر مرا حرفِ تسلّی وہ دوا ھو جس سے جی اٹھے پھر ترا اجڑا ھوا بے نور دماغ تیری پیشانی سے دھل جائیں یہ تذلیل کے داغ تیری بیمار جوانی کو شفا ھو جائے گر مجھے اس کا یقین ھو مرے ھمدم ، مرے دوست روز و شب ، شام و سحر میں تجھے بہلاتا رھوں میں تجھے گیت سناتا رھوں ھلکے ، شیریں آبشاروں کے بہاروں کے ، چمن زاروں کے گیت آمدِ صبح کے ، مہتاب کے ، سیّاروں کے گیت تجھ سے میں حسن و محبت کی حکایات کہوں کیسے مغرور حسیناؤں کے برفاب سے جسم گرم ھاتھوں کی حرارت میں پگھل جاتے ھیں کیسے اک چہرے کے ٹھہرے ھوئے مانوس نقوش دیکھتے دیکھتے یک لخت بدل جاتے ھیں کس طرح عارضِ محبوب کا شفّاف بلور یک بیک بادہِ احمر سے دہک جاتا ھے کیسے گلچیں کے لئے جھکتی ھے خود شاخِ گلاب کس طرح رات کا ایوان مہک جاتا ھے یونہی گاتا رھوں ، گاتا رھوں تیری خاطر گیت ُبنتا رھوں، بیٹھا رھوں تیری خاطر پر مرے گیت ترے دکھ کا ُمداوا ھی نہیں نغمہ جرّاح نہیں، مونس و غم خوار سہی گیت نشتر تو نہیں ، مرھم ِ آزار سہی تیرے آزار کا چارہ نہیں، نشتر کے سوا اور یہ سفّاک مسیحا مرے قضے میں نہیں اس جہاں کے کسی ذی روح کے قبضے میں نہیں ھاں مگر تیرے سوا ، تیرے سوا ، تیرے سوا فیض احمد فیض یہ نظم پڑھنے میں اتنا مزا نہیں آتا جتنا سننے میں آتا ھے !آڈیو حاصل کرنے کے لیئے مجھے میل کریں Monday, August 22, 2005ایک روز اچانک وہ سرِ راہ ملی تو میرے ٹوٹے دل سے اک آہ نکلی تو میں نے اس سے پوچھا بتا کیسی ھے تو رو پڑی وہ دکھا کے مجھے اپنے ھاتھوں کی مہندی Sunday, August 21, 2005وہ جو شہرِ دل تھا اُجڑ گیا وہ جو خواب تھا بکھر گیا کبھی موسموں کی نظر لگی کبھی وہموں نے ڈرا دیا کبھی زندگی کی کتاب سے ہمیں جس نے چاہا مٹا دیا بس اسی لئیے، وہ جو جا رہا تھا دور تک اُسے دیکھتے ہی رہے مگر، نہیں دی صدا اسے روکتے بھی تو کس لئیے؟ اسے روکتے بھی تو کس لئیے؟ سمیرا گل سے شکریہ کے ساتھ، جن کے بلاگ پہ یہ خوبصورت نظم میں نے پہلی دفعہ پڑھی۔ اگر پہلے پوسٹ کر دی ہو تو معذرت۔ ,والسلام اسماء گفتگو کے لمحوں میں دیکھ ہی نہیں پاتے ہم تمہارے چہرے کو تم ہماری آنکھوں کو آج ایسا کرتے ہیں چشم و لب کو پڑھتے ہیں بات چھوڑ دیتے ہیں جانے کیا لمحہ ہوگا جب یہ ہاتھ ہاتھوں سے گر کبھی جدا ہوگا آج ایسا کرتے ہیں ضبطِ جاں پرکھتے ہیں ہاتھ چھوڑ دیتے ہیں کاش کوئی سمجھادے لوگ کس طرح دل کی منزلیں الگ کرکے ساتھ چھوڑ دیتے ہیں آج ایسا کرتے ہیں بے سبب بکھرتے ہیں ذات توڑ دیتے ہیں !شفقت خان سے شکریہ کے ساتھ Tuesday, August 16, 2005جو کچھ کہنے کا ارادہ ہو ضرور کہیے۔ دورانِ گفتگو خاموش رہنے کی صرف ایک وجہ ہونی چاہیئے، وہ یہ ہے کہ آپ کے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہے۔ رونہ جتنی دیر جی چاہیئے، باتیں کیجیے۔ اگر کسی نے بولنا شروع کر دیا تو موقع ہاتھ سے نکل جائے گا اور کوئی دوسرا آپ کو بور کرنے لگے گا۔ چنانچہ جب بولتے بولتے سانس لینے کو لیئے رکیں تو ہاتھ کے اشارے سے واضح کردیں کے ابھی بات ختم نہیں ہوئی یا قطع کلامی معاف کہہ کر پھر سے شروع کر دیجئے۔ اگر کوئی دوسرا اپنی طویل گفتگو ختم نہیں کر رہا تو بے شک جمائیاں لیجئے، کھانسئیے، بار بار گھڑی دیکھئیے ۔۔۔ “ابھی آیا“ ۔۔۔ کہہ کر باہر چلے جائیے یا وہیں سو جائیے۔ یہ بالکل غلط ہے کہ آپ لگاتار بول کر بحث نہیں جیت سکتے۔ اگر آپ ہار گئے تو مخالف کو آپ کی ذہانت پر شبہ ہو جائے گا۔ البتہ لڑئیے مت، کیونکہ اس سے بحث میں خلل آسکتا ہے۔ کوئی غلطی سر د ہو جائے تو اسے بھی مت مانئیے۔ لوگ ٹوکیں تو تو الٹے سیدھے دلائل بلند آواز میں پیش کر کے انہیں خاموش کرا دیجئے، ورنہ وہ خوامخواہ سر پر چڑھ جائیں گے۔ دورانِ گفتگو لفظ “آپ“ کا استعمال دو یا تین مرتبہ سے زیادہ نہیں ہونا چاہیئے۔ اصل چیز “میں“ ہے۔ اگر آپ نے اپنے متعلق نہ کہا تو دوسرے اپنے متعلق کہنے لگیں گے۔ تعریفی جملوں کے استعمال سے پرہیز کریں، کبھی کسی کی تعریف مت کریں۔ ورنہ سننے والے کو شبہ ہوجائے گا کہ آپ کو اس سے کوئی کام ہے۔ اگر کسی شخص سی کچھ پوچھنا ہو، جسے وہ بار بار چھپا رہا ہو، تو بار بار اسکی بات کو کاٹ کر اسے چڑائیے۔ وکیل بھی اسی طرح مقدمے جیتتے ہیں۔ شفیق الرحمٰن کی“مزید حماقتیں“ سے ایک اقتباس Sunday, August 14, 2005میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے تُو تو میری جان ہے تُو تو میری آن ہے تُو میرا ایمان ہے کہتی ہے یہ راہِ عمل آؤ ہم سب ساتھ چلیں مشکل ہو یا آسانی ہاتھ میں ڈالیں ہاتھ چلیں سورج ہے سرحد کی زمیں چاند بلوچستان ہے میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے گلشن ہو یا پربت ہو ہم سے کوئی دور نہیں دل کس کی تعریف کرے ہر گوشہ ہے آپ حسین دھڑکن ہے پنجاب اگر دل اپنا مہران ہے میں بھی پاکستان ہوں تو بھی پاکستان ہے ایک نغمہ پاکستان کے نام ہم وطن ! یہ گلستاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے قائدِ اعظم کی کہتے ہیں امانت ہم جسے ورثہ یہ اے مہرباں! تیرا بھی ہے میرا بھی ہے وقت کا ہے یہ تقاضہ متحد ہو جائیں ہم کب سے دشمن آسماں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے سوچ تو، گلشن کی بربادی کا ہو گا کیا حال شاخِ گل پہ آشیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے آبِ راوی ہو کہ آبِ سندھ، ہے سب کے لیئے دامنِ موجِ رواں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے (راغب مراد آبادی) Wednesday, August 10, 2005تم پوچھو اور میں نہ بتاؤں ، ایسے تو حالات نہیں ایک ذرا سا دل ٹوٹا ھے ، اور تو کوئی بات نہیں کس کو خبر تھی سانولے بادل ِبن برسے اڑ جاتے ھیں ساون آیا لیکن اپنی قسمت میں برسات نہیں ٹوٹ گیا جب دل تو پھر یہ سانس کا نغمہ کیا معنی گونج رھی ھے کیوں شہنائی جب کوئی بارات نہیں غم کے اندھیارے میں تجھ کو اپنا ساتھی کیوں سمجھوں ُتو پر ُتو ھے، میرا تو سایا بھی میرے ساتھ نہیں مانا جیون میں عورت اک بار محبت کرتی ھے لیکن مجھ کو یہ تو بتا دے کیا تو عورت ذات نہیں ختم ھوا میرا افسانہ ، اب یہ آنسو پونچھ بھی لو جس میں کوئی تارا چمکے آج کی رات وہ رات نہیں میرے غمگیں ھونے پر احباب ھیں یوں حیراں قتیل جیسے میں پتھر ھوں ، میرے سینے میں جذبات نہیں قتیل شفائی Tuesday, August 09, 2005آجکل بلدیاتی انتخابات کی لہر اور ماضی کے تلخ تجربات کی کتنی صحیح عکاسی کی گئی ہے۔ سب کاٹ دو بسمل پودوں کو بے آب سسکتے مت چھوڑو سب نوچ لو بیکل پھولوں کو شاخوں پہ بلکتے مت چھوڑو یہ فصل ا مید و ں کی ہمد م اس با ر بھی غا ر ت جا ئے گی سب محنت صبحوں شاموں کی ا ب کے بھی ا کا ر ت جائے گی کھیتی کے کونوں کُھدروں میں پھر ا پنے لہو کی کھا د بھر و پھر مٹی سینچو ا شکو ں سے پھر ا گلی رُ ت کی فکر کر و پھر ا گلی رُ ت کی فکر کر و جب پھر اِ کبا ر اُ جڑ نا ہے اِ ک فصل پکی تو بھر پا یا جب تک تو یہی کچھ کر نا ہے فیض احمد فیض منٹگمری جیل 30 مارچ 1955 Saturday, August 06, 2005ایک دن ہمیں بھی چَین کی نیند آئے گی دوست ایک دن ہم بھی زمین اوڑھ کر سو جائیں گے Friday, August 05, 2005موسمم کے تلوّن کی یہ کیفیت ہے کہ دن بھر تھکے ہارے پھیری والے شام کو گھر کو لوٹتے ہیں تو بغیر استخارہ کئے یہ فیصلہ نہیں کر سکتے کہ صبح اٹھ کربھوبل کی بھنی گرما گرم مونگ پہلی بیچیں یا آئس کریم۔ کراچی کے باشندوں کو غیر ملکی سیاحت پر اُکسانےمیں آب و ہوا کا بڑا دخل ہے یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انگلستان کا موسم اگر اتنا ظالم نہ ہوتا تو انگریز دوسرے ملکوں کو فتح کرنے ہر گز نہ نکلتے۔ میں یہ نہیں کہتا کہ آپ محض میری صحت دیکھ کر یہاں کی آب و ہوا سے بد ظن ہو جائیں لیکن اطلاعاً اتنا ضرور عرض کروں گاکہ مقامی چڑیا گھر میں جو بھی نیا جانور آتا ہے کچھ دن یہاں کی بہار جانفزا دیکھ کر کارپو ریشن کو پیارا ہوجاتا ہے اور جو جانور بچ جاتے ہیں ان کا تعلق اس مخلوق سے ہوتا ہے جس کو طبعی موت مرتے کم از کم میں نے نہیں دیکھا۔ مثلاً مگر مچھ ، ہاتھی، میونسپلٹی کا عملہ ۔۔۔۔۔ ہم نے کراچی کے ایک قدیم باشندے سے پوچھا کہ یہاں مون سون کا موسم کب آتا ہے؟ اس بزرگ باراں دیدہ نے نیلے آسمان کو تکتے ہوئے جواب دیا کہ چار سال پہلے بدھ کو آیا تھا۔ یہ کہنا تو غلط ہوگا کہ کراچی میں بارش نہیں ہوتی۔ البتہ اسکا کوئی وقت اورپیمانہ معین نہیں ہے لیکن جب ہوتی ہے تو اس انداز سے گویا کسی مست ہاتھی کو زکام ہوگیا ہے۔ سال کا بیشتر حصہ میں بادلوں سے ریت برستی رہتی ہے لیکن چھٹے چھ ماہے دو چار چھینٹے پڑ جائیں تو چٹیل میدانوں میں بہو بیٹیاں ایک دوسرے کو دیکھنے کے لیے نکل پڑتی ہیں۔ اس قسم کا موسم بے تحاشا "رش" لیتا ہے۔ ۔۔۔۔۔۔۔ وہ انگریزی فلمیں جن میں بارش کے مناظر ہوتے ہیں کراچی میں خوب کامیاب ہوتی ہیں۔ جغرافیہ پڑھنے والے بچے انہیں خود دیکھتے اور والدیں کو دکھاتے ہیں۔ صاحب استطاعت والدین اپنے بچوں کو بارش کا مطلب سمجھانے کے لیے راولپنڈی لے جاتے ہیں اور انہیں وہ ہرے بھرے لان بھی دکھاتے ہیں جن پر پانی "روپیہ" کی طرح بہا یا جاتا ہے۔ اقتباسات : موسموں کا شہر از مشتاق احمد یوسفی Wednesday, August 03, 2005رات کو ساڑھے گيارہ بجے دروازے پر گھنٹی ہوئی۔ميں اُٹھ کر دروازے تک گيا اور دروازہ کھولے بغير اندر سے باآوازِ بلند پوچھا۔"کون ہے؟" "ميں زيدی ہوں" "زيدی کون؟" ميں نے شہريوں کي جان و مال کی محافظ پوليس کی کارکردگی پر عملی طور پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے ايک بار پھر دروازہ کھولے بغير اندر ہی سے پوچھا۔"ميں حسن جعفر زيدی ہوں" باہر سے آواز آئی۔ حسن جعفر زيدی ميرا ہمسايہ بلکہ بہت ہی ہمسايہ ہے يعنی اتنا قريبی کہ ميرے اور اُس کے گھر کی ديوار سانجھی ہے اور بوقتِ ضرورت اپنے اپنے گھر ميں بيٹھے ہوئے ايک دوسرے سے ہم کلام ہوا جا سکتا ہے۔ ميں دروازہ کھول کر باہر نکلا تو اندھيرے ميں مجھے زيدی صاحب کے علاوہ دو اور مدھم سی شکليں نظر آئيں۔ اُن ميں سے ايک پوليس اہلکار تھا اور دوسری کوئی خاتون تھی۔ميرے لئے يہ صورتحال پريشان کُن تھی۔ جنانچہ ميرے دماغ ميں انديشہ ہائے دور دراز پرورش پانے لگے۔ ميں ذرا آگے بڑھا تو ميں نے ديکھا کہ وہ خاتون درنجف زيدی يعنی حسن جعفر زيدی کی بيوی تھيں۔ اُن مياں بيوی کے ساتھ پوليس کے دو اہلکار تھے جن ميں سے ايک غالبا اے ايس آئی اور دوسرا کانسٹيبل تھا۔ "کيا بات ہے؟" ميں نے اِس عجيب و غريب صورتحال کا معمہ حل کرنے کے لئے زيدی سے پوچھا۔"ميں معافی چاہتا ہوں، اِس وقت تمہيں زحمت دی" زيدی نے کہا۔ " مگر يہ ناگزير تھا، کيونکہ تم نے شہادت دينی ہے يہ خاتون جو ميرے ساتھ ہے، ميری بيوی ہے۔ ہم مارکيٹ آئس کريم کھانے گئے تھے۔ پوليس ہميں وہاں سے پکڑ لائی ہے۔ انہيں يقين ہے کہ ہم مياں بيوی نہيں ہيں، کيونکہ ہماری جيب ميں نکاح نامہ نہيں ہے" عطاالحق قاسمی کی تصنيف "جرمِ ظريفی" سے اقتباس جہانزیب اشرف سے شکریہ کے ساتھ جنکے توسط سے یہ آپ تک پہنچا ۔ ارے واہ یہ تو پی ٹی وی کا اشتہار ہو گیا - اسماء |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:خزینہ گم گشتہ:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
![]() |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |