|
Sunday, September 25, 2005زندگی کے میلے میں، خواہشوں کے ریلے میں تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں وقت کی روانی ہے، بخت کی گرانی ہے سخت بے زمینی ہے، سخت لامکانی ہے ہجر کے سمندر میں تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے تم کو جو سنانی ہے بات گو ذرا سی ہے بات عمر بھر کی ہے عمر بھر کی باتیں کب دو گھڑی میں ہوتی ہیں درد کے سمندر میں اَن گِنت جزیرے ہیں، بے شمار موتی ہیں! آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا بات اس دیئے کی ہے بات اس گلے کی ہے جو لہو کی خلوت میں چور بن کے آتا ہے لفظ کی فصیلوں پہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے زندگی سے لمبی ہے، بات رَت جگے کی ہے راستے میں کیسے ہو ۔۔۔ بات تخلیئے کی ہے تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اضافی ہے پیار کرنے والوں کو اِک نگاہ کافی ہے ہو سکے تو سن جاؤ ایک دن اکیلے میں تم سے کیا کہیں جاناں، اس قدر جھمیلے میں ۔۔ امجد اسلام امجد ۔۔ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
2: تبصرہ جات
nice but read too many times... should be something new...
one thing im gonna share with u ...
سفر تنہا نہیں کرتے
سنو ایسا نہیں کرتے
جنہیں شفاف رکھنا ہو
انھیں میلا نہیں کرتے
تیری آنکھیں اجازت دیں تو
ہم کیا کیا نہیں کرتے
سفر جسکا مقدر ہو
اسے روکا نہیں کرتے
جو مل کے خود سے کھو جاے
اسے رسوا نہیں کرتے
یہ اونچے پیڑ کیسے ہیں
کہیں سایہ نہیں کرتے
تیری آنکھوں کو پڑھتے ہیں
تجھے دیکھا نہیں کرتے
سحر سے پوچھ لو محسن
ہم سویا نہیں کرتے
i have tried to write in urdu... lets see what will happen??
9/25/2005 08:41:00 PM
بہت خوب ہے اسماء
9/26/2005 11:23:00 PM
Post a Comment
<< صفحہ اول