|
Saturday, September 17, 2005جب تم سے اتفاقاً ميري نظر ملي تھي کچھ ياد آرہا ہے شائد وہ جنوري تھي پھر مجھ سےيوں ملے تھےتم ماہِ فروري ميں جيسے کہ ہمسفر ہو تم راہِ زندگي ميں کتنا حسين زمانہ آيا تھا مارچ لے کر راہِ وفا پہ تھے تم جلتے چراغ لے کر اس وقت ميرے ہمدم اپريل چل رہا تھا دنيا بدل رہي تھي موسم بدل رہا تھا ليکن مئي جو آئي جلنے لگا زمانہ ہر شخص کي زباں پہ تھا بس يہي فسانہ دنيا کے ڈر سے تم نے بدلي تھيں جب نگاہيں تھا جون کا مہينہ لب پہ تھيں گرم آہيں ماہِ اگست ميں جب برسات ہو رہي تھي بس آنسوؤں کي بارش دن رات ہو رہي تھي اس ميں نہيں کوئي شک وہ ماہ تھا ستمبر بھيجا تھا تم نے مجھ کو ترکِ وفا کا ليٹر تم غير ہو رہے تھے اکتوبر آ گيا تھا دنيا بدل چکي تھي موسم بدل چکا تھا جب آگيا نومبر ايسي بھي رات آئي مجھ سے تمھيں چھڑانے سج کر بارات آئي بے کيف تھا دسمبر جزبات مر چکے تھے ان حادثوں سے ميرے ارماں ٹھٹھر چکے تھے ليکن ميں کيا بتاؤں اب حال دوسرا ہے وہ سال دوسرا تھا يہ سال دوسرا ہے نوٹ ۔ اپني ڈائري سے پراني نظم نقل کي ہے مگر شاعر کا نام ياد نہيں۔ اميد ہے بےنام شاعر کي کاوش پسند آۓ گي۔ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
5: تبصرہ جات
nice poem
9/17/2005 07:14:00 PM
خوب!۔۔۔۔۔
9/17/2005 08:35:00 PM
بہت خوب ۔۔۔
9/17/2005 11:16:00 PM
مزے دار کاوش ہے۔
9/17/2005 11:45:00 PM
اچھی طبع آزمائی ہے۔
9/18/2005 12:17:00 AM
Post a Comment
<< صفحہ اول