|
Friday, July 29, 2005ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا آپ آتے تھے مگر کوئی عناں گیر بھی تھا تم سے بیجا ہے مجھے اپنی تباہی کا گلہ اُس میں کچھ شائبہ خوبیِ تقدیر بھی تھا تو مجھے بھول گیا ہو تو پتہ بتلا دوں کبھی فتراک میں ترے کوئی نخچیر بھی تھا قید میں بھی ترے وحشی کو وہی زُلف کی یاد ہاں کچھ اِک رنجِ گرانباری زنجیر بھی تھا بجلی اک کوند گئی آنکھوں کے آگے تو کیا بات کرتے کہ میں لبِ تشنہءِ تقریر بھی تھا یوسف اس کو کہوں اور کچھ نہ کہے خیر ہوئی گر بگڑ بیٹھے تو میں لائقِ تعزیر بھی تھا دیکھ کر غیر کو ہو کیوں نہ کلیجہ ٹھنڈا نالہ کرتا تھا ولے طالبِ تاثیر بھی تھا پیشے میں عیب نہیں،رکھیے نہ فرہاد کونام ہم ہی آشفتہ سروں میں وہ جواں میر بھی تھا ہم تھے مرنے کو کھڑے پاس نہ آیا نہ سہی آخر اس شوخ کے ترکش میں کوئی تیر بھی تھا پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا ریختی کے تمہی استاد نہیں ہو غالب کہتے ہیں اگلے زمانے میں کوئی میر بھی تھا (میرزا اسد اللہ خاں غالب دہلوی) |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
0: تبصرہ جات
Post a Comment
<< صفحہ اول