|
Saturday, June 11, 2005زندگی کے میلے میں خواہشوں کے ریلے میں تم سے کیا کہیں جاناں اس قدر جھمیلے میں وقت کی روانی ہے بخت کی گِرانی ہے سخت بے زمینی ہے سخت لامکانی ہے ہجر کے سمندر میں تخت اور تختے کی ایک ہی کہانی ہے تم کو جو سنانی ہے بات گو ذرا سی ہے بات عمر بھر کی ہے عمر بھر کی باتیں کب دَو گھڑی میں ہوتی ہیں درد کے سمندر میں اَن گِنت جزیرے ہیں، بیشمار موتی ہیں آنکھ کے دریچے میں تم نے جو سجایا تھا بات اُس دیئے کی ہے بات اُس گِلے کی ہے جو لہو کی خلوت مین چور بن کے آتا ہے لفظ کی فصیلوں پہ ٹوٹ ٹوٹ جاتا ہے زندگی سے لمبی ہے، بات اُس رَت جگے کی ہے راستے میں کیسے ہو بات تخلیئے کی ہے تخلیئے کی باتوں میں گفتگو اِضافی ہے پیا ر کرنے والوں کو اِک نگاہ کافی ہے ہو سکے تو سُن جاؤ ایک دن اکیلے میں تم سے کیا کہیں جاناں، اس قدر جھمیلے میں (امجد اسلام امجد) |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
1: تبصرہ جات
wah wah wah.... amjad islam amjad ki tou baat hi aur hai.. :P
7/02/2005 02:34:00 AM
Post a Comment
<< صفحہ اول