|
Thursday, July 14, 2005بھیڑ بھیڑ کی کھال مشہور ہے، بھیڑ کی چال مشہور ہے اور بھیڑ کا مآل بھی مشہور ہے۔ بہت کم بھیڑیں عمرِ طبعی کو پہنچتی ہیں۔ جو رشتہ شیر بکری سے ہم نے بیان کیا ہے، وہی رشتہ بھیڑ کا بھیڑیے سے ہے۔ بھیڑیں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ سفید بھیڑیں، کالی بھیڑیں وغیرہ، لیکن بھیڑیا سب کو ایک نظر سے دیکھتا ہے اور یکساں چاہت سے لقمہ بناتا ہے۔ اِس جانور میں قربانی کا مادہ بہت ہوتا ہے اور انسان اس مادے سے بہت فائدہ اُٹھاتا ہے۔ گوشت کھا جاتا ہے، کھال بیچ دیتا ہے۔ بکری گرچہ چھوٹی ہے ذات بکری کی، لیکن دودھ یہ بھی دیتی ہے۔ عام طور پرصرف دودھ دیتی ہے لیکن مجبور کریں تو کچھ منگنیاں بھی ڈال دیتی ہے۔ جن بکریوں کو شہرتِ عام اور بقائے دوام میں جگہ ملی ہے، ان میں ایک گاندھی جی کی بکری تھی اور ایک اخفش نامی بزرگ کی، روایت ہے کہ وہ بکری نہیں بکرا تھا، معقول صورت۔ یہ جو شاعری میں اوزان اور بحروں کی بدعت ے۔ یہ اخفش صاحب سے ہی منسوب کی جاتی ہے۔ بیٹھے فاعلاتن فاعلات کیا کرتے تھے، جہاں شک ہو تصدیق کے لئے بکرے سے پوچھتے تھے کہ کیوں حضرت ٹھیک ہے نہ؟ وہ بکرا اللہ اُسے جنت میں یعنی جنت والوں کے پیٹ میں جگہ دے، سر ہلا کر ان کی بات پر صاد کر دیتا تھا۔ اس بکرے کی جسل بہت پھیلی، پاکستان میں بھی پائی جاتے ہے۔ سوتے جاگتے اس کے منہ سے یس سر، یس سر، جی حضور، بجافرمایا وغیرہ نکلتا رہتا ہے۔ اسے بات سننے اور سمجھنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ جن ملکوں میں بہت انصاف ہو ان میں شیر اور بکریاں ایک گھاٹ پر پانی پینے لگتی ہیں، جس طرح علامہ اقبال کے ایک شعر میں محمود اور ایاز ایک صف میں کھڑے ہو جاتے ہیں۔ اس میں فائدہ یہ ہے کہ شیر پانی پینے کے بعد وہیں بکری کو دبوچ لیتا ہے، اُسے ناشتے کے لئے زیادہ دور نہیں جانا پڑتا۔ گدھا گدھا بڑا مشہور جانور ہے۔ گدھے دو طرح کے ہوتے ہیں،چار پاؤں والے اور دو پاؤں والے۔ سینگ ان میں کسی کے سر پر نہیں ہوتے۔ آج کل چار پاؤں والے گدھوں کی نسل گھٹ رہی ہے دو پاؤں والوں کی بڑھ رہی ہے۔ گھوڑے کی شکل ایک حد تک گدھے سے ملتی ہے، بعض لوگ گدھے گھوڑے کو برابر سمجھنے کی غلطی کر بیٹھتے ہیں۔ دونوں کہ ایک تھان پر باندھتے ہیں، یا ایک لاٹھی سے ہانکنا شروع کر دیتے ہیں۔ اگر گدھا اس پر اعتراض کرے تو کہتے ہیں، سنو ذرا اس گدھے کی باتیں۔ سوچنے کی بات ہے اگر گھوڑا کسی لائق ہوتا تو حضرت عیسی اس پر سواری نہ کرتے، گدھے کو کیوں پسند کرتے؟ شاعروں نے بھی گدھے کی ایک خوبی کی تعریف کی ہے۔ خرِ عیسٰی ہو یا کوئی اور گدھا اگر وہ مکہ بھی ہو آئے تو گدھا ہی رہتا ہے۔ دوسرے جانور بشمول آدمی تو اپنی اصل بھول جاتے ہیں، واپس آکر القاب کے دُم چھلے لگاتے ہیں۔ معلوم ہوتا ہے ایک زمانے میں گدھوں کی مشابہت گھوڑوں کی بجائے آدمیوں سے زیادہ ہوتی تھی۔ غالب اپنے محبوب کے دروازے پر کسی کام سے گئے اُس کا پاسبان یعنی دربان ان کو حضرت عیسی کی سواری کا جانور سمجھ کر بوجہ احترام چُپ رہا، لیکن جب اُنھوں نے کنوتیاں جھاڑ کر اس کے قدم لینے کی کوشش کی تو سمجھ گیا کہ یہ تو نجم الدولہ دبیرالُملک مرزا اسد اللہ خاں بہادر ہیں۔ چناچہ کماحقہ بد سلوکی کی۔ |
بیاض کیا ہے؟بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے اراکینِ بیاضبیاض میں شمولیت؟دیکھنے میں دشواری؟اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔ گذشتہ تحریرات:
بلاگ ڈیزائن: حنا امان |
© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006 |
4: تبصرہ جات
خوب اچھا اقتباس ہے
7/14/2005 03:45:00 PM
hmm nice.very nice.
but dont u think it was too long?but still nice
n yes Asma! plz get ur holoscan at ur blog changed..i cant comment:( :( do as VL has done..
7/14/2005 08:49:00 PM
(no offence)...
but.... sachi bolon???
boooooooooooring ...... cuz buhat dafa parhi hai :(
7/14/2005 11:31:00 PM
hmmmm..... quiet boring ....no hard feeling...
7/20/2005 01:20:00 AM
Post a Comment
<< صفحہ اول