<body topmargin="0" leftmargin="0" bgcolor="#F9F8EC" bgproperties="fixed"><script type="text/javascript"> function setAttributeOnload(object, attribute, val) { if(window.addEventListener) { window.addEventListener('load', function(){ object[attribute] = val; }, false); } else { window.attachEvent('onload', function(){ object[attribute] = val; }); } } </script> <div id="navbar-iframe-container"></div> <script type="text/javascript" src="https://apis.google.com/js/platform.js"></script> <script type="text/javascript"> gapi.load("gapi.iframes:gapi.iframes.style.bubble", function() { if (gapi.iframes && gapi.iframes.getContext) { gapi.iframes.getContext().openChild({ url: 'https://www.blogger.com/navbar.g?targetBlogID\x3d12814790\x26blogName\x3d%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88+%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D8%B6\x26publishMode\x3dPUBLISH_MODE_BLOGSPOT\x26navbarType\x3dBLUE\x26layoutType\x3dCLASSIC\x26searchRoot\x3dhttps://bayaaz.blogspot.com/search\x26blogLocale\x3den_US\x26v\x3d2\x26homepageUrl\x3dhttp://bayaaz.blogspot.com/\x26vt\x3d2065659182679175016', where: document.getElementById("navbar-iframe-container"), id: "navbar-iframe" }); } }); </script>

Friday, April 28, 2006

تجھے مجھ سے مجھ کو تجھ سے جو بہت ہی پیار ہوتا

تجھے مجھ سے مجھ کو تجھ سے جو بہت ہی پیار ہوتا نہ تجھے قرار ہوتا نہ مجھے قرار ہوتا تیرا ہر مرض الجھتا مری جانِ ناتواں سے جو تجھے زکام ہوتا تو مجھے بخار ہوتا جو میں تجھ کو یاد کرتا تجھے چھینکنا بھی پڑتا مرے ساتھ بھی یقیناً یہی بار بار ہوتا کسی چوک میں لگاتے کوئی چوڑیوں کا کھوکھا ترے شہر میں بھی اپنا کوئی کاروبار ہوتا غم و رنجِ عاشقانہ نہیں کیلکولیٹرانہ اسے میں شمار کرتا جو نہ بے شمار ہوتا وہاں زیرِ بحث آتے خط و خال و خائے خوباں غمِ عشق پر جو انور کوئی سیمینار ہوتا ۔۔۔ انور مسعود ۔۔۔



بول کے لب آزاد ہیں تیرے

بول کے لب آزاد ہیں تیرے بول، زباں اب تک تیری ہے تیرا ستواں جسم ہے تیرا بول کہ جاں اب تک تیری ہے دیکھ کے آہن گر کی دکاں میں تند ہے شعل، سرخ ہے آہن کھلنے لگے قفلوں کے دہانے پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن بول، یہ تھوڑا وقت بہت ہے جسم و زباں کی موت سے پہلے بول کہ سچ زندہ ہے اب تک بول، جو کچھ کہنا ہے کہہ لے! ۔۔۔ فیض احمد فیض ۔۔۔



Tuesday, April 11, 2006

آج جانے کی ضد نہ کرو

آج جانے کی ضد نہ کرو یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو ہائے مر جائیں گے ہم تو لٹ جائیں گے ایسی باتیں کیا نہ کرو آج جانے کی ضد نہ کرو یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو تم ہی سوچو ذرا کیوں نہ روکين تمہیں جان جاتی جب اٹھ کہ جاتے ہو تم تم کو اپنی قسم جان جاں بات اتنی میری مان لو آج جانے کی ضد نہ کرو یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو وقت کی قید میں زندگی ہے مگر چند گھڑیاں یہی ہیں جو آزاد ہیں ان کو کھو کر میری جان جاں عمر بھر نہ ترستے رہو آج جانے کی ضد نہ کرو یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو کتنا ماسوم و رنگیں ہے یہ سما حسن اور عشق کی آج معراج ہے کل کی کس کو خبر جان جاں روک لو آج کی رات کو آج جانے کی ضد نہ کرو یوں ہی پہلو میں بیٹھے رہو



Monday, April 03, 2006

غزل

جب بھي مجھے آمد ہوتي ہے بيگم ميري بجنگ آمد ہوتي ہے پتھر دلوں کو پل ميں موم کرے ہاۓ کيا چيز خوشامد ہوتي ہے محبت نہيں پابند کسي اصول کي يہ بن کسٹم کے برآمد ہوتي ہے بڑھاپے کي نشاني ياد رکھنا بيوي گھرميں خاوند ہوتي ہے ہوجاؤکمر بستہ واہ واہ کرنے والو محفل ميں شاعر کي آمد ہوتي ہے ميراپاکستان



بیاض کیا ہے؟

بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے

اراکینِ بیاض

اسماء

عمیمہ

حارث

میرا پاکستان

طلحہ

باذوق

حلیمہ

بیا

میاں رضوان علی

بیاض میں شمولیت؟

اگر آپ بیاض میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ قوائد پڑھ لیں، بعد از اپنے نام اس ای میل پر بھیجیں۔

دیکھنے میں دشواری؟

اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔

گذشتہ تحریرات:

خزینہ گم گشتہ:

Powered by Blogger

بلاگ ڈیزائن: حنا امان

© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006