<body topmargin="0" leftmargin="0" bgcolor="#F9F8EC" bgproperties="fixed"><script type="text/javascript"> function setAttributeOnload(object, attribute, val) { if(window.addEventListener) { window.addEventListener('load', function(){ object[attribute] = val; }, false); } else { window.attachEvent('onload', function(){ object[attribute] = val; }); } } </script> <div id="navbar-iframe-container"></div> <script type="text/javascript" src="https://apis.google.com/js/platform.js"></script> <script type="text/javascript"> gapi.load("gapi.iframes:gapi.iframes.style.bubble", function() { if (gapi.iframes && gapi.iframes.getContext) { gapi.iframes.getContext().openChild({ url: 'https://www.blogger.com/navbar.g?targetBlogID\x3d12814790\x26blogName\x3d%D8%A7%D8%B1%D8%AF%D9%88+%D8%A8%DB%8C%D8%A7%D8%B6\x26publishMode\x3dPUBLISH_MODE_BLOGSPOT\x26navbarType\x3dBLUE\x26layoutType\x3dCLASSIC\x26searchRoot\x3dhttps://bayaaz.blogspot.com/search\x26blogLocale\x3den_US\x26v\x3d2\x26homepageUrl\x3dhttp://bayaaz.blogspot.com/\x26vt\x3d2065659182679175016', where: document.getElementById("navbar-iframe-container"), id: "navbar-iframe" }); } }); </script>

Thursday, December 29, 2005

يہ جو لمحے گلاب جيسے ہيں

يہ جو لمحے گلاب جيسے ہيں آ کہ تجھ بن عذاب جيسے ہيں تو نہيں ہے تو ايسا لگتا ہے سارے منظر سراب جيسے ہيں يہ جو سپنے ادھر نہيں آتے ميرے خط کے جواب جيسے ہيں پاس جائيں تو ہم پہ کھلتا ہے لوگ سارے سراب جيسے ہيں گيت ناہيد کيا سناؤں ميں سٔر سبھي اضطراب جيسے ہيں ناہِيد ورک



Tuesday, December 27, 2005

بھول ہوئی ہے

برگشتہء یزدان سے کچھ بھول ہوئی ہے بھٹکے ہوۓ انسان سے کچھ بھول ہوئی ہے تاحدِ نظر شعلے ہی شعلے ہیں چمن ميں پھولوں کے نگہبان سے کچھ بھول ہوئی ہے جس عہد میں لٹ جاۓ فقیروں کی کمائی اس عہد کے سلطان سے کچھ بھول ہوئی ہے حوروں کی طلب اور مہ و ساغر سے ہے نفرت زاہد تیرے عرفان سے کچھ بھول ہوئی ہے ساغر صدیقی



Monday, December 19, 2005

کب ياد ميں

کب ياد ميں تيرا ساتھ نہيں، کب بات ميں تري بات نہيں صد شکر کہ اپني راتوں ميں اب ہجر کي کوئي رات نہيں مشکل ہيں اگر حالات وہاں، دل بيچ آئيں جان دے آئيں دل والوں کوچہ جاناں ميں کيا ايسے بھي حالات نہيں جس دھج سے کوئي مقتل ميں گيا، وہ شان سلامت رہتي ہے يہ جان تو آني جاني ہے، اس کي تو کوئي بات نہيں ميدان وفا دربار نہیں، ياں نام و نسب کي پوچھ کہاں عاشق تو کسي کا نام، کچھ عشق کسي کي ذات نہيں گربازي عشق کي بازي ہے، جو چاہو لگا دو ڈر کيسا گر جيت گئےتو کيا کہنا، ہارے بھي بازي مات نہيں فيض احمد فيض کی ایک شاندار غزل



Sunday, December 18, 2005

پہاڑ

ان پہاڑوں کو ديکھوں ،بعضوں کي چوٹياں آسمان سے باتيں کرتي ہيں۔ کيا باتيں کرتي ہيں؟ يہ کسي نے نہيں سنا۔پہاڑوں کے اندر کيا ہوتا ہے؟ معلوم نہيں ۔بعض اوقات پہاڑ کو کھودو تو اندر سے چوہا نکلتا ہے۔بعض اوقات چوہا بھي نہيں نکلتا ۔جس پہاڑ ميں سے چوہا نکلے اسے غنيمت جاننا چاہئيے۔ جو لوگ پہاڑوں پر رہتے ہيں ان کو گرم کپڑے تو ضرور بنوائے پڑتے ہيں ليکن ويسے کئي فائدے بھي ہيں ۔پہاڑوں پر برف جمي ہے جو ان لوگوں کو مفت مل جاتي ہے۔جتنا جي چاہے پاني ميں ڈال کر پيئيں ۔برف ميں رہنے والوں کو ريفريجريٹر بھي نہيں خريدنے پڑتے پيسے بچتے ہيں۔ پہاڑ پتھروں کےبنے ہوتے ہيں۔ پتھر بہت سخت ہوتے ہيں ۔جس طرح محبوبوں کے دل سخت ہوتے ہيں ۔فرق يہ ہے کہ کبھي کبھي پتھر موم بھي ہو جاتے ہيں۔جو پہاڑ بہت بلندي دکھاتے ہيں ان کو کاٹتے ہيں اور کاٹ کر ان کے پتھر سڑکوں پر بچھاتے ہيں لوگ انہيں جوتوں سے پامال کرتے گزرتے ہيں ۔ جو پتھر زيادہ سختي دکھائيں وھ چکي ميں پستے ہيں ۔ سرمہ بن جاتے ہيں ۔سارا پتھر پن بھول جاتے ہيں۔ ۔۔۔کون ہو سکتا ہے ۔۔۔ابن انشاء ۔۔۔ کے علاوہ ۔۔۔



اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائيں

اس سے پہلے کہ بے وفا ہوجائيں کيوں نہ اے دوست ہم جدا ہو جائيں تو بھي ہيرے سے بن گيا پتھر ہم بھي جانے کيا ہو جائيں تو کہ يکتا بے شمار ہوا ہم بھي ٹوٹيں تو جا بجا ہوجائيں ہم بھي مجبوريوں کا عذر کريں پھر کہيں اور مبتلا ہو جائيں ہم اگر منزليں نہ بن پائے منزلوں تک کا راستہ ہو جائيں دير سے سوچ ميں ہيں پروانے راکھ ہو جائيں يا ہوا ہوجائيں اب کے گر تو ملے تو ہم تجھ سے ايسے لپٹيں کہ قبا ہو جائيں بندگي ہم نے چھوڑ دي فراز کيا کريں جب لوگ خدا ہوجائيں احمد فراز



کراچي سے ہيتھرو تک

يہ صورت اس وقت پيدا ہوتي ہے جب چھوٹي کار تيز اور بڑي کار کو آھستہ چلايا جائے بخش کے پاس بڑي کار ہے۔ مگر نہ وہ اسے آہستہ چلاتے ہيں اور نہ تيز چلاتے ہيں بس يہ ہے کہ جب بريک پر پاؤں رکھنا ہو بخش صاحب ايکسيليٹر پر پاؤں رکھ ديتے ہيں اور جب پاؤں ايکسيليٹر پر ھونا چائيے اس وقت بخش صاحب کا پاؤں بريک پر ہوتا ہے۔ تاہم بخش صاحب کا کمال فن يہ ہے کہ ان کا آج تک چالان نہيں ہوا جيسے آج تک ہمارے ملک کے صاحبان اقتدار کا کبھي چالان نہيں ہو سکا جو ملک اسي طرح چلاتے ہيں۔ جس طرح بخش لائل پوري کار چلاتے ہيں۔لندن کي پراني طرز کي سياہ عمارتوں اور تنگ گلي کوچوں سے گزرتے ہوئے اب ھم ٣٣٧ ميٹر روڈ ويٹ بانسلو کے سامنے کھڑے تھے ۔يہ گھر مجھے بہت عزيز ھے ۔ ميں نے گذشتہ برس بھي اس گھر میں دو ہفتے گذارے تھے ۔ سويٹي بيٹي، فرحانہ بيٹي ، شاہد ، شفقت ، بھابي شميم اور مور اوور کے طور پر بخش لائل پوري کي پر خلوص مہمانداري کے طفيل مجھے اپنے گھر سے ہزاروں ميل دور يہ گھر اپنا سا لگتا ہے۔ جاری ہے ۔۔۔ یہ میں کہہ رہی ہوں قاسمی صاحب نہیں-اسماء ۔۔۔ عطاء الحق قاسمي ۔۔ گوروں کے ديس ميں ۔۔۔



Wednesday, December 14, 2005

ایک محبت ایک افسانہ

اکثر ایسے بھی ہوا کہ تم نے اپنی پسند پر میری مرضی کو قربان کردیا اور میں نے پتہ نہیں کیوں قربان ہونے دیا۔ میں بالوں میں ٹیڑھی مانگ نکالتا تھا لیکن تم نے کہا "مجھے درمیان میں پسند ہے"۔ میں نے کنگھی تمہارے آگے بڑھادی تو تم نے کہا "میں خود نہیں نکالوں گی۔" پھر میری مانگ خودبخود سیدھی نکلنے لگی۔ پر ان بالوں کو حسرت ہی رہی کہ کبھی تمہارے ہاتھوں سے منت پزیر شانہ ہوتے۔ ایک بار جب میں کرائے کی سائیکل لے کر سارا دن ادھر ادھر گھومتا رہا تھا اور شام کو دکان بند ہوگئی تھی اور میں سائیکل لے کر گھر آگیا تھا تو رات کو کھلی ہوئی چاندنی دیکھ کر تمہارا جی چرایا۔ تم سائیکل برآمدے سے باہر گلی میں نکال لے گئیں لیکن چلاتا کون! اس وقت اگر میں نہ ہوتا تو پتہ نہیں تم کتنی دیر ایسے ہی کھڑی رہتیں۔ پھر میں نے ہی تمہیں آگے بٹھا کر گلی کے اس سرے تک سیر کروائی لیکن اونچے نیچے گڑھوں والی زمین پر سائیکل اچھلتی رہی اور میری ٹھوڑی تمہارے سر سے ٹکراتی رہی اور واپسی پر جب میں نے یہ رائے دی کہ دکانوں کی قطار کا چکر کاٹ کر اپنے گھر کے پچھواڑے جا اتریں گے کیونکہ وہ راستہ ہموار تھا تو تم نے خود میری تجویز رد کردی تھی۔ اگر اس طرح ایک بار پھر میری ٹھوڑی تمہاری مانگ کو چھو رہی تھی تو میرا قصور؟ جب تم کالج سے دوپہر کو گھر آتی تھیں تو میں اپنی کھڑکی کھولے ہوئے بیٹھا ہوتا۔ ہمارے گھر کے عین سامنے ایک چھوٹی سی کھائی تھی جسے تم ہمیشہ پھلانگ کر گزرا کرتی تھیں۔ تمہارے ساتھ اور دو تین لڑکیاں بھی ہوتیں مگر وہ کھبی اس طرح نہ گزری تھیں یا تو اس سے کترا جاتیں یا ایک پاؤں اس میں اتار کر دوسرا اگلے کنارے پر رکھ دیتیں۔ میں یہی نظارہ کرنے کے لئیے کھڑکی کے پٹ کھولے رکھتا تھا۔ تھوڑے عرصے بعد وہ کھائی پر ہوگئی لیکن تم نے اپنا انداز نہ بدلا۔ تم اس تازہ ڈھلی ہوئی مٹی پر سے اسی طرح گزرتی رہیں جیسے کھائی پر سے گزرتی تھیں اور وہ نشیب پر ہونے کے باوجود میری کھڑکی بند نہ ہوئی۔ جب میں نےخدا کو ماننا چھوڑ دیا تو اوروں کے ساتھ تمہیں بھی رنج ہوا بھائی جان سے میری لمبی لمبی بحثیں سن کر تم نے مجھ سے پوچھا تھا۔ "آخر آپ خدا کو مانتے کیوں نہیں؟" تو میں نے کہا تھا کہ "اس کے ماننے یہ نہ ماننے سے انسانی زندگی پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔" تو تم نے جواب دیا تھا کہ "میں تو سمجھتی تھی فلسفہ پڑھنے سے تمہارا دماغ روشن ہوجائے گا۔ پر…" "روشن ہی تو ہوا ہے۔" میں نے کہا تھا "جب وقت…" "وقت اور فاصلہ میں کچھ نہیں سمجھتی۔" تم نے بات کاٹ کر کہا۔ "آج سے خدا کو مانا کرو۔" "لیکن… " "لیکن کچھ نہیں۔ میں جو کہتی ہوں خدا ہے۔" "پر…" "اچھا تو جاکر اپنی کھڑکی بند کرلو۔ سمجھ لو آج سے وہ کھائی پر ہوچکی۔" میں تم سے تو شاید نہ ڈرتا لیکن تمہاری دھمکی سے ڈر گیا اور اس دن سے مجھے ہر شے میں خدا کا ظہور نظر آنے لگا۔ * * اشفاق احمد مرحوم کے افسانے 'رات بیت رہی ہے' سے اقتباس۔ یہ افسانہ ان کے مجموعے 'ایک محبت سو افسانے' میں شائع ہوا تھا۔



Wednesday, December 07, 2005

خوشبو

خوشبو، ہوا، تتلیاں اور پھول۔ یہ الفاظ سن کر اردو شاعری کا جو چہرہ ذہن میں آتا ہے وہ خوبصورت چہرہ ہے پروین شاکر کا۔ پروین شاکر ایک شاعرہ سے بڑھ کر ایک رہنما ثابت ہوئیں۔ اردو شاعری میں جدید، پرکشش اور پراثر نسوانی طرز کی بنیاد ڈالنے والی یہ شاعرہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ کر ہم سے جدا ہوگئیں۔ لیکن ان کے کلام کی خوشبو ہوا کے ساتھ ساتھ پھیلتی رہی۔ ان کی شاعری نے پہلی مرتبہ پاکستانی عورتوں اور دنیا بھر کی خواتین کے جذبات اور احساسات کی اردو شاعری میں ترجمانی کی۔ پروین شاکر کی نظموں کی وہ لڑکی جو دریا کے کنارے پر بیٹھی اپنے بالوں میں چمکتی پانی کی بوندوں کو دیکھ کر کھو جاتی ہے۔ وہی لڑکی جہاں ایک طرف خوشبو اور پیار کے چند بولوں کی غلام نظر آتی ہے وہیں قربانی، وفا اور ایثار کا پیکر بھی۔ ان کی برسی چند دن پہلے منائی گئی اسی سلسلے میں پیش خدمت ہے ان کے کلام سے انتخاب۔ سب سے پہلے ایک غزل سے چند اشعار: مشکل ہے شہر میں نکلے کوئی گھر سے دستار پہ بات آگئی ہے ہوتی ہوئی سر سے برسا بھی تو کس دشت کے بے فیض بدن پر اک عمر میرے کھیت تھے جس ابر کو ترسے اس بار جو ایندھن کے لئیے کٹ کے گرا ہے چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے اب ایک نظم جس کا عنوان ہے 'پیار': ابر بہار نے پھول کا چہرہ اپنے بنفشی ہاتھ میں لیکر ایسے چوما پھول کے سارے دکھ خوشبو بن کر بہہ نکلے ہیں ایک اور نظم جس کا عنوان ہے توقع: جب ہوا دھیمے لہجوں میں کچھ گنگناتی ہوئی خواب آسا، سماعت کو چھوجائے، تو کیا تمہیں کوئی گزری ہوئی بات یاد آئے گی؟ ان کے آخری مجموعہ کلام کف آئینہ سے ایک نظم: یہ بارش خوبصورت ہے ایک عرصے بعد میری روح میں سیراب ہونے کی تمنا جاگ اٹھی ہے مگر بادل کے رستے میں بہت سے پیڑ آتے ہیں میں پل بھر کے لئیے شاداب ہوں اور اپنی باقی عمر پھر صحرا میں کاٹوں؟ میں اپنی پیاس پر راضی رہوں گی مرے آنسو مرے دل کی کفالت کے لئیے کافی رہیں گے اور آخر میں پیش خدمت ہیں ان کی ایک مشہور غزل کے چند اشعار: اپنی رسوائی ترے نام کا چرچا دیکھوں ایک ذرا شعر کہوں اور میں کیا کیا دیکھوں نیند آجائے تو کیا محفلیں برپا دیکھوں آنکھ کھل جائے تو تنہائی کا صحرا دیکھوں شام ہوگئی دھندلا گئ آنکھیں بھی مری بھولنے والے میں کب تک ترا رستہ دیکھوں پروین شاکر کے مجموعے ماہ تمام سے انتخاب اردو پوائنٹ پر یہاں پڑھا جاسکتا ہے۔ مزید کلام رومن اردو میں اردو پوئٹری ڈاٹ کام پر پڑھا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ پروین شاکر کی مختصر پروفائل یہاں پڑھئیے۔



Monday, December 05, 2005

سویرے جو کل آنکھ میری کھلی

گیدڑ کی موت آتی ہے تو شہر کی طرف دوڑتا ہے۔ ہماری جو شامت آئی تو ایک دن اپنے پڑوسی لالہ کرپا شنکرجی برہمچاری سے برسبیل تذکرہ کہہ بیٹھے کہ "لالہ جی امتحان کے دن قریب آتے جاتے ہیں، آپ سحرخیز ہیں، ذرا ہمیں بھی صبح جگادیا کیجیئے۔" وہ حضرت بھی معلوم ہوتا ہے نفلوں کے بھوکے بیٹھے تھے۔ دوسرے دن اُٹھتے ہی انہوں نے ایشور کا نام لے کر ہمارے دروازے پر مکابازی شروع کردی کچھ دیر تک تو ہم سمجھے کہ عالم خواب ہے۔ ابھی سے کیا فکر، جاگیں تو لاحول پڑھ لیں گے۔ لیکن یہ گولہ باری لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی گئی۔ اور صاحب جب کمرے کی چوبی دیواریں لرزنے لگیں، صراحی پر رکھا گلاس جلترنگ کی طرح بجنے لگا اور دیوار پر لٹکا ہوا کیلنڈر پنڈولم کی طرح ہلنے لگا تو بیداری کا قائل ہونا ہی پڑا۔ مگر اب دروازہ ہے کہ لگاتار کھٹکھٹایا جا رہا ہے۔ میں کیا میرے آباؤاجداد کی روحیں اور میری قسمت خوابیدہ تک جاگ اُٹھی ہوگی۔ بہتر آوازیں دیتا ہوں۔۔۔ "اچھا!۔۔۔ اچھا!۔۔۔ تھینک یو!۔۔۔ جاگ گیا ہوں!۔۔۔ بہت اچھا! نوازش ہے!" آنجناب ہیں کہ سنتے ہی نہیں۔ خدایا کس آفت کا سامنا ہے؟ یہ سوتے کو جگا رہے ہیں یا مردے کو جلا رہے ہیں؟ اور حضرت عیسیٰ بھی تو بس واجبی طور پر ہلکی سی آواز میں "قم" کہہ دیا کرتے ہوں گے، زندہ ہوگیا تو ہوگیا، نہیں تو چھوڑ دیا۔ کوئی مردے کے پیچھے لٹھ لے کے پڑجایا کرتے تھے؟ توپیں تھوڑی داغا کرتے تھے؟ یہ تو بھلا ہم سے کیسے ہوسکتا تھا کہ اُٹھ کر دروازے کی چٹخنی کھول دیتے، پیشتر اس کے کہ بستر سے باہر نکلیں، دل کو جس قدر سمجھانا بجھانا پڑتا ہے۔ اس کا اندازہ کچھ اہل ذوق ہی لگا سکتے ہیں۔ آخرکار جب لیمپ جلایا اور ان کو باہر سے روشنی نظر آئی، تو طوفان تھما۔ اب جو ہم کھڑکی میں سے آسمان کو دیکھتے ہیں تو جناب ستارے ہیں، کہ جگمگا رہے ہیں! سوچا کہ آج پتہ چلائیں گے، یہ سورج آخر کس طرح سے نکلتا ہے۔ لیکن جب گھوم گھوم کر کھڑکی میں سے اور روشندان میں سے چاروں طرف دیکھا اور بزرگوں سے صبح کاذب کی جتنی نشانیاں سنی تھیں۔ ان میں سے ایک بھی کہیں نظر نہ آئی، تو فکر سی لگ گئی کہ آج کہیں سورج گرہن نہ ہو؟ کچھ سمجھ میں نہ آیا، تو پڑوسی کو آواز دی۔ "لالہ جی!۔۔۔ لالہ جی؟" جواب آیا۔ "ہوں۔" میں نے کہا "آج یہ کیا بات ہے۔ کچھ اندھیرا اندھیرا سا ہے؟" کہنے لگے "تو اور کیا تین بجے ہی سورج نکل آئے؟" تین بجے کا نام سن کر ہوش گم ہوگئے، چونک کر پوچھا۔ "کیا کہا تم نے؟ تین بجے ہیں۔" کہنے لگے۔ "تین۔۔۔ تو۔۔۔ نہیں۔۔۔ کچھ سات۔۔۔ ساڑھے سات۔۔۔ منٹ اوپر تین ہیں۔" میں نے کہا۔ "ارے کم بخت، خدائی فوجدار، بدتمیز کہیں کے، میں نے تجھ سے یہ کہا تھا کہ صبح جگا دینا، یا یہ کہا تھا کہ سرے سے سونے ہی نہ دینا؟ تین بجے جاگنا بھی کوئی شرافت ہے؟ ہمیں تو نے کوئی ریلوے گارڈ سمجھ رکھا ہے؟ تین بجے ہم اُٹھ سکا کرتے تو اس وقت دادا جان کے منظور نظر نہ ہوتے؟ ابے احمق کہیں کے تین بجے اُٹھ کے ہم زندہ رہ سکتے ہیں؟ امیرزادے ہیں، کوئی مذاق ہے، لاحول ولاقوة"۔ دل تو چاہتا تھا کہ عدم تشدد وتشدد کو خیرباد کہہ دوں لیکن پھر خیال آیا کہ بنی نوع انسان کی اصلاح کا ٹھیکہ کوئی ہمیں نے لے رکھا ہے؟ ہمیں اپنے کام سے غرض۔ لیمپ بجھایا اور بڑبڑاتے ہوئے پھر سوگئے۔ اور پھر حسب معمول نہایت اطمینان کے ساتھ بھلے آدمیوں کی طرح اپنے دس بجے اُٹھے، بارہ بجے تک منھ ہاتھ دھویا اور چار بجے چائے پی کر ٹھنڈی سڑک کی سیر کو نکل گئے۔ شام کو واپس ہاِسٹل میں وارد ہوئے۔ جوش شباب تو ہے ہی اس پر شام کا ارمان انگیز وقت۔ ہوا بھی نہایت لطیف تھی۔ طبعیت بھی ذرا مچلی ہوئی تھی۔ ہم ذرا ترنگ میں گاتے ہوئے کمرےمیں داخل ہوئے کہ بلائیں زلف جاناں کی اگر لیتے تو ہم لیتے کہ اتنے میں پڑوسی کی آواز آئی۔ "مسٹر"۔ ہم اس وقت ذرا چٹکی بجانے لگے تھے۔ بس انگلیاں وہیں پر رک گئیں۔ اور کان آواز کی طرف لگ گئے۔ ارشاد ہوا "یہ آپ گا رہے ہیں؟" (زور "آپ" پر)میں نے کہا۔ "اجی میں کس لائق ہوں۔ لیکن خیر فرمائیے؟" بولے "ذرا۔۔۔ وہ میں۔۔۔ میں ڈسٹرب ہوتا ہوں ۔ بس صاحب۔ ہم میں جو موسیقیت کی روح پیدا ہوئی تھی فوراً مر گئی۔ دل نے کہا۔ "اونابکار انسان دیکھ پڑھنے والے یوں پڑھتے ہیں "صاحب، خدا کے حضور گڑگڑا کر دعا مانگی کہ "خدایا ہم بھی اب باقاعدہ مطالعہ شروع کرنے والے ہیں۔ہماری مدد کر اور ہمیں ہمت دے۔" آنسو پونچھ کر اور دل کو مضبوط کرکے میز کے سامنے آبیٹھے، دانت بھینچ لئے، نکٹائی کھول دی، آستینیں چڑھا لیں، لیکن کچھ سمجھ میں نہ آيا کہ کریں کیا؟ سامنے سرخ سبز، زرد سب ہی قسم کی کتابوں کا انبار لگا تھا۔ اب ان میں سے کوئی سی پڑھیں؟ فیصلہ یہ ہوا کہ پہلے کتابوں کو ترتیب سے میز پر لگادیں کہ باقاعدہ مطالعہ کی پہلی منزل یہی ہے۔ بڑی تقطیع کی کتابوں کو علیحدہ رکھ دیا۔ چھوٹی تقطیع کی کتابوں کو سائز کے مطابق الگ قطار میں کھڑا کردیا۔ ایک نوٹ پیپر پر ہر ایک کتاب کے صفحوں کی تعداد لکھ کر سب کو جمع کیا پھر ١٥ ۔اپریل تک کے دن گنے۔ صفحوں کی تعداد کو دنوں کی تعداد پر تقسیم کیا۔ ساڑھے پانچ سو جواب آیا، لیکن اضطراب کی کیا مجال جو چہرے پر ظاہر ہونے پائے۔ دل میں کچھ تھوڑا سا پچھتائے کہ صبح تین بجے ہی کیوں نہ اُٹھ بیٹھے لیکن کم خوابی کے طبی پہلو پر غور کیا۔ تو فوراً اپنے آپ کو ملامت کی۔ آخرکار اس نتیجے پر پہنچے کہ تین بجے اُٹھنا تو لغویات ہےالبتہ پانچ، چھ، سات بجے کے قریب اُٹھنا معقول ہوگا۔ صحت بھی قائم رہے گی، اور امتحان کی تیاری بھی باقاعدہ ہوگی۔ ہم خرماد ہم ثواب۔ یہ تو ہم جانتے ہیں کہ سویرے اُٹھنا ہو تو جلدی ہی سو جانا چاہیئے۔ کھانا باہر سے ہی کھا آئے تھے۔ بستر میں داخل ہوگئے۔ چلتے چلتے خیال آیا، کہ لالہ جی سے جگانے کے ليے کہہ ہی نہ دیں؟ یوں ہماری اپنی قوت ارادی کافی زبردست ہے جب چاہیں اُٹھ سکتے ہیں، لیکن پھر بھی کیا ہرج ہے؟ڈرتے ڈرتے آواز دی۔ "لالہ جی!" انہوں پتھر کھینچ مارا "یس!" ہم اور بھی سہم گئے کہ لالہ جی کچھ ناراض معلوم ہوتے ہیں، تتلا کے درخواست کی کہ لالہ جی، صبح آپ کو بڑی تکلیف ہوئی، میں آپ کا بہت ممنون ہوں۔ کل اگر ذرا مجھے چھ بجے یعنی جس وقت چھ بجیں۔۔۔" جواب ندارد۔ میں نے پھر کہا "جب چھ بج چکیں تو۔۔۔ سنا آپ نے؟" چپ۔ "لالہ جی!" کڑکتی ہوئی آواز نے جواب دیا۔ "سن لیا سن لیا چھ بجے جگا دوں گا۔ تھری گاما پلس فور ایلفا پلس۔۔۔" "ہم نے کہا ب۔۔۔ ب۔۔۔ ب۔۔۔ بہت اچھا۔ یہ بات ہے۔" توبہ! خدا کسی کا محتاج نہ کرے۔ لالہ جی آدمی بہت شریف ہیں۔ اپنے وعدے کے مطابق دوسرے دن صبح چھ بجے انہوں نے دروازو ں پر گھونسوں کی بارش شروع کردی۔ ان کا جگانا تو محض ایک سہارا تھا ہم خود ہی انتظار میں تھے کہ یہ خواب ختم ہولے تو بس جاگتے ہیں۔ وہ نہ جگاتے تو میں خود ایک دو منٹ کے بعد آنکھیں کھول دیتا۔ بہر صورت جیسا کہ میرا فرض تھا۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے اس شکل میں قبول کیا کہ گولہ باری بند کردی۔ اس کے بعد کے واقعات ذرا بحث طلب سے ہیں اور ان کے متعلق روایات میں کسی قدر اختلافات ہے بہرحال اس بات کا تو مجھے یقین ہے۔ اور میں قسم بھی کھا سکتا ہوں کہ آنکھیں میں نے کھول دی تھیں۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ ایک نیک اور سچے مسلمان کی طرح کلمہ شہادت بھی پڑھا۔ پھر یہ بھی یاد ہے کہ اُٹھنے سے پیشتر دیباچے کے طور پر ایک آدھ کروٹ بھی لی۔ پھر کا نہیں پتہ۔ شاید لحاف اوپر سے اتار دیا۔ شاید سر اس میں لپیٹ دیا۔ یا شاید کھانسایا خراٹا لیا۔ خیر یہ تو یقین امر ہے کہ دس بجے ہم بالکل جاگ رہے تھے۔ لیکن لالہ جی کے جگانے کے بعد اور دس بجے سے پیشتر خدا جانے ہم پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ نہیں ہمارا خیال ہے پڑھ رہے تھے یا شاید سو رہے تھے۔ بہرصورت یہ نفسیات کا مسئلہ ہے جس میں نہ آپ ماہر ہیں نہ میں۔ کیا پتہ، لالہ جی نے جگایا ہی دس بجے ہو۔ یا اس دن چھ دیر میں بجے ہوں۔ خدا کے کاموں میں ہم آپ کیا دخل دے سکتے ہیں۔ لیکن ہمارے دل میں دن بھر یہ شبہ رہا کہ قصور کچھ اپنا ہی معلوم ہوتا ہے۔ جناب شرافت ملاحظہ ہو، کہ محض اس شبہ کی بناء پر صبح سے شام تک ضمیر کی ملامت سنتا رہا۔ اور اپنے آپ کو کوستا رہا۔ مگر لالہ جی سے ہنس ہنس کر باتیں کیں ان کا شکریہ ادا کیا۔ اور اس خیال سے کہ ان کی دل شکنی ہو، حد درجے کی طمانیت ظاہر کی کہ آپ کی نوازش سے میں نے صبح کا سہانا اور روح افزا وقت بہت اچھی طرح صرف کیا ورنہ اور دنوں کی طرح آج بھی دس بجے اُٹھتا۔ "لالہ جی صبح کے وقت دماغ کیا صاف ہوتا ہے، جو پڑھو خدا کی قسم فوراً یاد ہوجاتا ہے۔ بھئی خدا نے صبح بھی کیا عجیب چیز پیدا کی ہے یعنی اگر صبح کے بجائے صبح صبح شام ہوا کرتی تو دن کیا بری طرح کٹا کرتا۔" لالہ جی نے ہماری اس جادوبیانی کی داد یوں دی کہ آپ پوچھنے لگے۔ "تو میں آپ کو چھ بجے جگا دیا کروں نا؟" میں نے کہا۔ "ہاں ہاں، واہ یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے۔ بےشک۔" شام کے وقت آنے والی صبح کے مطالعہ کے ليے دو کتابیں چھانٹ کر میزپر علیحدہ جوڑ دیں۔ کرسی کو چارپائی کے قریب سرکالیا۔ اوورکوٹ اور گلوبند کو کرسی کی پشت پر آویزاں کر لیا۔ کنٹوپ اور دستانے پاس ہی رکھ ليے۔ دیاسلائی کو تکیئے کے نیچے ٹٹولا۔ تین دفعہ آیت الکرسی پڑھی، اور دل میں نہایت ہی نیک منصوبے باندھ کر سوگیا۔ صبح لالہ جی کی پہلی دستک کے ساتھ ہی جھٹ آنکھ کھل گئی، نہایت خندہ پیشانی کے ساتھ لحاف کی ایک کھڑکی میں سے ان کو "گڈمارننگ" کیا، اور نہیات بیدارانہ لہجے میں کھانسا، لالہ جی مطمئن ہو کر واپس چلے گئے۔ ہم نے اپنی ہمت اور اولوالعزمی کو بہت سراہا کہ آج ہم فوراً ہی جاگ اُٹھے۔ دل سے کہا کہ "دل بھیا، صبح اُٹھنا تو محض ذرا سی بات ہے ہم یوں ہی اس سے ڈرا کرتے تھے"۔ دل نے کہا "اور کیا؟ تمہارے تو یوں ہی اوسان خطا ہوجایا کرتے ہیں"۔ ہم نے کہا "سچ کہتے ہو یار، یعنی اگر ہم سستی اور کسالت کو خود اپنے قریب نہ آنے دیں تو ان کی کیا مجال ہے کہ ہماری باقاعدگی میں خلل انداز ہوں۔ اس وقت لاہور شہر میں ہزاروں ایسے کاہل لوگ ہوں گے جو دنیا ومافیہا سے بےخبر نیند کے مزے اُڑاتے ہوں گے۔ اور ایک ہم ہیں کہ ادائے فرض کی خاطر نہایت شگفتگہ طبعی اور غنچہ دہنی سے جاگ رہے ہیں۔ "بھئی کیا برخوردار سعادت آثار واقع ہوئے ہیں۔" ناک کو سردی سی محسوس ہونے لگی تو اسے ذرا یو ں ہی سا لحاف اوٹ میں کر لیا اور پھر سوچنے لگے۔۔۔ "خوب۔ تو ہم آج کیا وقت پر جاگے ہیں بس ذرا اس کی عاد ت ہوجائے تو باقاعدہ قرآن مجید کی تلاوت اور فجر کی نماز بھی شروع کردیں گے۔ آخر مذہب سب سے مقدم ہے ہم بھی کیا روزبروز الحاد کی طرف مائل ہوتے جاتے ہیں نہ خدا کا ڈر اور نہ رسول کا خوف۔ سمجھتے ہیں کہ بس اپنی محنت سے امتحان پاس کرلیں گے۔ اکبر بیچارا یہی کہتا کہتا مرگیا لیکن ہمارے کان پر جوں تک نہ چلی۔۔۔ (لحاف کانوں پر سرک آیا)۔۔۔ تو گویا آج ہم اور لوگوں سے پہلے جاگے ہیں۔۔۔ بہت ہی پہلے۔۔۔ یعنی کالج شروع ہونے سے بھی چار گھنٹے پہلے۔ کیا بات ہے! خداوندان کالج بھی کس قدر سست ہیں ایک مستعد انسان کو چھ بجے تک قطعی جاگ اُٹھنا چاہئے۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ کالج سات بجے کیوں نہ شروع ہوا کرے۔۔۔ (لحاف سر پر)۔۔۔ بات یہ ہے کہ تہذیب جدید ہماری تمام اعلیٰ قوتوں کی بیخ کنی کر رہی ہے۔ عیش پسندی روزبروز بڑھتی جاتی ہے۔۔۔ (آنکھیں بند)۔۔۔ تو اب چھ بجے ہیں تو گویا تین گھنٹے تو متواتر مطالعہ کیا جاسکتا ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پہلے کون سی کتابیں پڑھیں۔ شیکسپیئر یا ورڈزورتھ؟ میں جانوں شیکسپیئر بہتر ہوگا۔ اس کی عظیم الشان تصانیف میں خدا کی عظمت کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔ اور صبح کے وقت اللہ میاں کی یاد سے بہتر چیز کیا ہوسکتی ہے؟ پھر خیال آیا کہ دن کو جذبات کے محشرستان سے شروع کرنا ٹھیک فلسفہ نہیں۔ ورڈزورتھ پڑھیں۔ اس کے اوراق میں فطرت کو سکون واطمینان میسر ہوگا اور دل اور دماغ نیچر کی خاموش دلآویزیوں سے ہلکے ہلکے لطف اندوز ہوں گے۔۔۔ لیکن ٹھیک ہی رہے گا شیکسپیئر۔۔۔ نہیں ورڈزورتھ۔۔۔ لیڈی میکبتھ۔۔۔ دیوانگی۔۔۔ سبزہ زار۔۔۔ سنجر سنجر۔۔۔ بادبہاری۔۔۔ صید ہوس۔۔۔ کشمیر۔۔۔ میں آفت کا پرکالہ ہوں۔۔۔ یہ معمہ اب مابعد الطبعیات ہی سے تعلق رکھتا ہے کہ پھر جو ہم نے لحاف سے سر باہر نکالا اور ورڈزورتھ پڑھنے کا ارادہ کیا تو وہی دس بج رہے تھے۔ اس میں نہ معلوم کیا بھید ہے! کالج ہال میں لالہ جی ملے۔ "مسٹر! صبح میں نے آپ کو پھر آواز دی تھی، آپ نے جواب نہ دیا؟" میں نے زور کا قہقہہ لگا کر کہا۔ "اوہو۔ لالہ جی یاد نہیں۔ میں نے آپ کو گڈمارننگ کہا تھا؟ میں تو پہلے ہی سے جاگ رہا تھا"۔ بولے "وہ تو ٹھیک ہے لیکن بعد میں۔۔۔ اس کے بعد!۔۔۔ کوئی سات بجے کے قریب میں نے آپ سے تاریخ پوچھی تھی، آپ بولے ہی نہیں۔" ہم نے نہایت تعجب کی نظروں سے ان کو دیکھا۔ گویا وہ پاگل ہوگئے ہیں۔ اور پھر ذرا متین چہرہ بنا کر ماتھے پر تیوریاں چڑھائےغوروفکر میں مصروف ہوگئے۔ ایک آدھ منٹ تک ہم اس تعمق میں رہے۔ پھر یکایک ایک محجومانہ اور معشوقانہ انداز سے مسکراکے کہا۔ "ہاں ٹھیک ہے، ٹھیک ہے، میں اس وقت۔۔۔ اے۔۔۔ اے، نماز پڑھ رہا تھا۔" لالہ جی مرعوب سے ہو کر چل دیئے۔ اور ہم اپنے زہد واتقا کی مسکینی میں سر نیچا کئے کمرے کی طرف چلے آئے۔ اب یہی ہمارا روزمرہ کا معمول ہوگیا ہے۔ جاگنا نمبر ایک چھ بجے۔ جگانا نمبر دو دس بجے۔ اس دوران لالہ جی آواز دیں تو نماز۔ جب دل مرحوم ایک جہان آرزو تھا تو یوں جاگنے کی تمنا کیا کرتے تھے کہ "ہمارا فرق ناز محو بالش کمخواب" ہو اور سورج کی پہلی کرنیں ہمارے سیاہ پُرپیچ بالوں پر پڑ رہی ہیں۔ کمرے میں پھولوں کی بوئے سحری روح افزائیاں کر رہی ہو۔ نازک اور حسین ہاتھ اپنی انگلیوں سے بربط کے تاروں کو ہلکے ہلکے چھیڑ رہے ہوں۔ اور عشق میں ڈوبی ہوئی سریلی اور نازک آواز مسکراتی ہوئی گا رہی ہو! تم جاگو موہن پیارے خواب کی سنہری دھند آہستہ آہستہ موسیقی کی لہروں میں تحلیل ہوجائے اور بیداری ایک خوشگوار طلسم کی طرح تاریکی کے باریک نقاب کو خاموشی سے پارہ پارہ کردے چہرے کسی کی نگاہ اشتیاق کی گرمی محسوس کر رہا ہو۔ آنکھیں مسحور ہو کر کھلیں اور چار ہوجائیں۔ دلآویز تبسم صبح کو اور بھی درخشندہ کردے۔ اور گیت "سانوری صورت توری من کو بھائی" کے ساتھ ہی شرم وحجاب میں ڈوب جائے۔ نصیب یہ ہے کہ پہلے "مسٹر! مسٹر!" کی آواز اور دروازے کے دنادن سامعہ نوازی کرتی ہے، اور پھر چار گھنٹے بعد کالج کا گھڑیال دماغ کے ریشے ریشے میں دس بجانا شروع کردیتا ہے۔ اور اس چار گھنٹے کے عرصہ میں گڑویوں کے گر گرنے۔ دیگچیوں کے اُلٹ جانے، دروازوں کے بند ہونے، کتابوں کے جھاڑنے، کرسیوں کے گھسیٹنے، کُلیاں اور غرغرے کرنے، کھنکھارنے اور کھانسنے کی آوازیں تو گویا فی البدیہہ ٹھمریاں ہیں۔ اندازہ کرلیجیئے کہ ان سازوں میں سُرتال کی کس قدر گنجائش ہے! موت مجھ کو دکھائی دیتی ہے جب طبعیت کو دیکھتا ہوں میں ۔۔۔ پطرس بخاری ۔۔۔



Sunday, December 04, 2005

ہارٹ اٹیک

درد اتنا تھا کہ اس رات دلِ وحشی نے ہر رگِ جاں سے الجھنا چاہا ہر بن مو سے ٹپکنا چاہا اور کہیں دور تیرے صحن میں گویا پتا پتا مرے افسردہ لہو میں دھل کر حسنِ مہتاب سے آزردہ نظر آنے لگا مرے ویرانہِ تن میں گویا سارے دکھتے ہوئے ریشوں کی طنابیں کھل کر سلسلہ وار پتا دینے لگیں رخصتِ قافلہِ شوق کی تیاری کا اور جب یاد کی بجھتی ہوئی شمعوں میں نظر آیا کہیں ایک پل، آخری لمحہ تیری دلداری کا درد اتنا تھا کہ اس سے بھی گزرنا چاہا ہم نے چاہا بھی، مگر دل نہ ٹھہرنا چاہا ۔۔۔ فیض احمد فیض ۔۔۔



بیاض کیا ہے؟

بیاض اردو شاعری اور ادب کا نچوڑ ہے

اراکینِ بیاض

اسماء

عمیمہ

حارث

میرا پاکستان

طلحہ

باذوق

حلیمہ

بیا

میاں رضوان علی

بیاض میں شمولیت؟

اگر آپ بیاض میں شامل ہونا چاہتے ہیں تو یہ قوائد پڑھ لیں، بعد از اپنے نام اس ای میل پر بھیجیں۔

دیکھنے میں دشواری؟

اردو کو بغیر دشواری کے دیکھنے کے لیے یہاں سے فونٹ حاصل کریں۔

گذشتہ تحریرات:

خزینہ گم گشتہ:

Powered by Blogger

بلاگ ڈیزائن: حنا امان

© تمام حقوق بحق ناشران محفوظ ہیں 2005-2006